مشاہدہ، جانچ اور سوچ کے فیتے بڑھانےکےکچھ کارآمد نسخےحسب ذیل ہیں جوچہارم اور پنجم جماعتوں کو مد نظررکھتے ہوئے”پتےکی مثال “کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ اس کےساتھ ساتھ استاد سےامید کی جاتی ہیکہ وہ سبق پڑھانےسے پہلے نفس مضمون (اس معاملہ میں”پتوں اور پودوں” کے)بارے میں تحقیق کرنے والے کچھ سائنسدانوں کے نام اور زندگی کے حال و احوال معلوم کرلیں تاکہ جب بچے سوالات کریں تو ان سوالات اور سائنسدانوں کے اپنے سوالات کے درمیان تطبیق کی جاسکے۔طلباء کوان سائنسدانوں کےاحوال سنائے جائیں کہ وہ متعلقہ مضمون کو کیسے پرکھتے اور کس قسم کےسوالات کرتے تھےاور پھر خودطلباء اورسائنسدانوں کے سوالات کا موازنہ کیا جائے۔(راقم تحریر نے انٹرنیٹ سے “پتوں اور پودوں” پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے حال احوال نکالنے کیلئے محض دس (10) منٹ لئے جو حسب ذیل ہیں)۔
- سال1931آرکڈ میں تعلیم کےدوران،مشہورماہرنباتیات رابرٹ براؤن نےخلیوں میں ایک اورساخت کودریافت کیا جسےآج ہم “مرکز”کہتے ہیں۔
- سال 1770 کوجان انجن ہاؤز نےدریافت کیا کہ پودے سورج کی روشنی پڑنے پراورچھاؤں پڑنے پرمختلف ردعمل رکھتے ہیں۔یہی دریافت بعدازاں مشہورزمانہ سائنسی دریافت “شعاعی تنفس”پرمنتج ہوئی۔
- پندرہویں صدی کے بعد بحری سفر پر جانےوالے یوروپی کھوجنےوالوں نےمحسوس کیا کہ ٹھنڈےعلاقوں میں زیادہ مخلوقات پائی جاتی ہیں جسکی بنیاد پرسائنسداں زمین پرحفظان زندگی کےموضوع پر تحقیق کرتےآرہےہیں۔
طلباء میں مشاہدے کی صلاحیت کو بتدریج درجہ کمال تک پہونچانے کیلئے کچھ رہنمایانہ ہدایات:
(متصلہ مستطیلوں میں رنگ جتنا گہرا ہوگا اتنا ہی مشاہدے میں شدت ہوگی)
طلباء میں جانچ پڑتال کی صلاحیت کو بتدریج پروان چڑھانے کیلئے رہنمایانہ ہدایات۔
پتوں کی مثال لیکرچندسوالات جوبحث کا موضوع بن سکتے ہیں حسب ذیل ہیں:
- پتےکی شکل ایسی ہی کیوں ہے؟
- پتےکےکیاکیااستعمالات ہیں؟
- پتہ کب نموپاتا ہے؟
- پتہ کہاں نموپاتا ہے؟
- پتہ کب معدوم ہوجاتا ہے؟
- پتےکےنشو نماکیلئےکن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
- کیا پتےکی کوئی بو ہوتی ہے؟ اوراس کی وجہ کیاہے؟
- کیا پتےکی بھی کوئی بھائی بہن ہیں جیسےمیرے ہیں؟
- کیا پتے کاکوئی خاندان بھی ہے جیسےمیرا ہے؟
- یہ پتہ کن چیزوں سے بنا ہے؟
- کیا میں پتےکوکھا سکتا ہوں/کھا سکتی ہوں؟
- پتےکوکون کھا سکتا ہے/کھا سکتی ہے؟
- کیا پتے کی شکل،جسامت اوررنگ وقت کے ساتھ بدلتا ہے؟
- کیا پتےکو کسی اور قسم کی مٹی میں اگاکراور کچھ مختلف غذا فراہم کرکے،اس کی شکل،جسامت اور رنگ میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے؟
- کیاحشرات پتے پرسونا یا اس کوکھانا پسند کرتے ہیں؟
- پتےکوحشرات اورجانوروں سےکیسے بچایا جاسکتا ہے؟ وغیرہ۔
احتیاط رہے کہ:
بسا اوقات صحیح جواب حاصل کرنے کی کوشش میں، کچھ اہم سوالات دب کررہ جاتے ہیں اورکمرہ جماعت صحیح وغلط فیصلہ کرنے کامیدان بن جاتا ہے۔ لہذادھیان رہے کہ ایسے طلباء جو ہمیشگی سوالات کرتے ہوں انکی ہمت افزائی کی جائے ۔
طلباء میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بتدریج پروان چڑھانے کیلئے رہنمایانہ ہدایات:
اچھی خاصی جانچ پڑتال کے بعد یہ بے جا نہ ہوگا کہ طلباء کومزید بحث و مباحثے کے ذریعہ مصروف رکھا جائے اور ان کے اندر موجود چنگاری کو باقی رکھا جائے(طلباء کی سمجھ اور دلچسپی کی مد نظر رکھتے ہوئے)۔
بچے کی جانب سے کئے گئے سوالات کو پچھلی دریافتوں یا سوالات سے یا آج کےنامعلوم سوالات سے جوڑ نا دراصل ایک طالب علم میں کبھی نہ ختم ہونے والا سائنسی مزاج پیدا کرتا ہے۔مزید، اس سوالی دور میں بچے کو سوالات کے جوابات حاصل کرنے میں عجلت نہیں برتنی چاہئے بلکہ ان سوالات کو سوچنے والےدور سےگزارکرایسا انگیز کیا جائے جیسے زبان پرچاکلیٹ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔سب سے اہم چیز یہ ہیکہ جواب حاصل کرنے میں عجلت نہ کیا جائے بلکہ جرات مندانہ سوال اور آزادانہ سوچ کی ہمت افزائی کی جائےجو مزید سوالات پر منتج ہوتے ہیں۔
کسی بھی ذہن میں سوالات کا اٹھنا دراصل اس شخص کے علم اور سمجھ کےمماثل ہوتا ہے۔لہذا ایک استاد کو چاہئے کہ وہ طلباء کی جانب سے کئے گئے سوالات کا تجزیہ کرتے رہے جس کیلئے کچھ رہنمایانہ خطوط حسب ذیل ہیں:
1۔اگر سوال یہ ہوتا ہیکہ”یہ پتہ ہرا کیوں ہے؟”، تو استاد کوچاہئے کہ بچوں کو اس جانب سوچنے پر مجبورکریں کہ کسی بھی چیز کا رنگ کیوں ہوتا ہے؟کیا ہم سب ایک ہی قسم کے رنگوں کو دیکھتے ہیں؟وہ کیاچیز ہے جو ہم میں رنگوںکا ادراک کرواتی ہے؟الغرض بچہ کو ایک سوال سے دوسرے سوال کی جانب ڈھکیلا جائے اور پھر تیسرے۔۔۔یہاں تک کہ بچہ محسوس کرلے اور خود اس بات کا متحمل ہوجائے کہ وہ خود اس نہج پر سوچ سکے۔
2۔پتے کی جسامت اور شکل پر کئے گئے سوالات کو خود ہماری جسامت اور شکل سے جوڑاجائےاور پھر دیگرجانوروں ومخلوقات سے۔بعدازاں مختلف فیہ مخلوقات کے ممکنہ آپسی تعلق کے بارے میں سوچنے پربھی ابھارا جاسکتا ہے۔کیا ایک ہاتھی، ہاتھی ہی رہے گا اگروہ اپنی موجودہ جسامت سے چھوٹا ہوجائے؟کیا ایک تربوز،اتنا ہی مزیدار ہوتا اگر اسکی جسامت بالکل چھوٹی ہوتی؟وغیرہ۔
3۔”پتہ کیسے نمو پاتا ہے” ایسےسوالات کومندرجہ ذیل “شعائی تنفس” کے خاکے سےسمجھایا جاسکتا ہے۔جس کے بارےمیں استاد کوسبق شروع ہونے سے پہلےہی معلوم کرلینا چاہئے۔
شعائی تنفس:بسا اوقات اس مضمون کو ایسا پڑھایا جاتا ہے گویا حضرات سائنسدان کو اس مظہر مطلق کا ادراک چٹکیوں میں ہوگیا تھا۔راقم تحریر نے انٹرنیٹ سے متذکرہ بالا مفید معلومات اخذ کی ہیں جس کیلئے 20 منٹ سے زیادہ نہیں لگے۔کسی بھی استاد سے التماس ہیکہ وہ ہر سبق سے پہلے اس قبیل کی 4 یا 5 مثالیں ڈھونڈ نکالے اور بچوں میں چھپے ہوئے سائنسدان کو جگانے کی کوشش کریں۔
کیا پانی ، پودوں میں توانائی کا مبداء ہے؟
تجربہ نمبر ایک (1):
سال1600میں ولندیزی(نیدرلینڈسے تعلق رکھنے والے) ماہر طبیعات اورکیمیاء دان ،جان بپٹسٹا ویان ہملونٹ نےوہ مشہور تجربہ کیا جس میں انہوں نے ایک معمولی گھڑے میں تقریباََ 5 سال ،بیدکے پودےکی افزائش کی۔
تجربہ ختم ہونے پر دیکھا گیا کہ درخت کے وزن میں 74 کلو گرام کا اضافہ ہواہےجبکہ گھڑے میں موجود مٹی کی کمیت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہواہے۔جبکہ ویان ہلمونٹ کا خیال تھا کہ پودےکی توانائی کا مبداء پانی ہے۔ پانی کے علاوہ اور کیا چیزیں ہوسکتی ہیں جو پودے کے نمو میں اپنا حصہ ادا کرتی ہوں۔ ان دیگر ممکنات کو آپ کیسے بتلائینگے(ایک طریقہ یہ ہوگا کہ تاریخی طور پر جو تجربے ہوئے ہیں ان کو بیان کردیا جائے)
تجربہ نمبر دو (2):
سترہویں صدی ہی کے اواخر میں، جامعہ کیمبرج کے پروفیسر اور سائنسداں،جان ووڈوارڈ نے جان بپٹسٹا کےنظریے کوجانچنے کی خاطر77 دنوں پر محیط ایک تجربہ کیا جس میں انہوں نے پودے کو پہونچانے والی پانی کی مقدار کو نوٹ کیا اور اس نتیجہ پر پہونچے کہ جتنا بھی پانی پودے کو پہونچایا جاتا ہےوہ جڑوں، تنہ اور پھر پتوں کے ذریعہ فضاء میں منتقل ہوجاتا ہے جس کی رو سے انہوں نے جان بپٹسٹا کے نظریے کو مسترد کردیاکہ پانی دراصل پودے کی توانائی کا مبدائ اصل ہے۔
پودوں کا ہوا سے ربط:
سن 1771 میں، ایک انگریز کیمیاء داں،جوسیف پریسٹلی نے ایک بند شفاف گلاس کے برتن میں پودینے کے گچھے کو ایک جلتی ہوئی موم بتی کے ساتھ رکھ کر تجربہ کیا۔ دفعتاََ دیکھا گیا کہ موم بتی نے ساری ہوا کو استعمال کرلیا(ذہن میں رہے کہ اس وقت آکسیجن کی دریافت نہیں ہوئی تھی)۔ بعد ازاں 27 دن بعد انہوں نے موم بتی کو(شفاف گلاس سے سورج کی روشنی گزار کر)جلایا اور کیا دیکھتے ہیں کہ موم بتی پھر جلنے لگی!! یہ آخر کیسے ہوا کہ ایک موم بتی جو کئی دن تک بظاہر ہوا کی غیر موجودگی میں جلنے سے قاصر رہی یکایک جلانے پر جلنے لگی۔ یوں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پودینے کے پتوں کابند گلاس کے برتن میں موجود ہوا کے ساتھ ربط رہا ۔دھیان رہے کہ اسی قسم کے تجربے آج مختلف جدید طریقوں سے کئے جاسکتے ہیں۔
ایک اورمشہور زمانہ تجربہ 1772 میں کیا جس میں انہوں نے ایک چوہے کو بند رنجن میں اکیلے اور دوسرے چوہے کو رنجن میں ایک پودے کے ساتھ رکھ کر ثابت کیا کہ پودے نے بند رنجن میں ہواکے تعدد پر اثرانداز ہوا تھا۔مزید برآں دھیان رہے کہ ہم اس قسم کے تجربات کی ہمت افزائی نہیں کرتے جس میں معصوم جانوروں پرظلم ہوتا ہے۔استاد ان تجربات کو بیان کرتے ہوئے بچوں سےتجاویز مانگتے رہے۔
پودے اور روشنی:
پریسٹلی کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے جان انجن ہاؤز نے ثابت کیا کہ پودے روشنی کی مددد سے آکسیجن تیار کرتے ہیں(سال 1772 میں کارل ولہیلم شیلنے آکسیجن کو دریافت کرلیا تھا)۔ البتہ انجن ہاؤزنے یہ غلط مفروضہ دیا تھا کہ پودوں کی تیار شدہ آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مرہون منت تھیں۔بہرکیف انجن ہاؤزاس نظریہ کو کامیابی سے پیش کرپائے کہ روشنی ،پودےکے تعاملات میں اہم حصہ ادا کرتی ہے جس میں “پودے،موم بتی یا جانوروں کی جانب سے استعمال شدہ ہوا کا صحیح استعمال کرتے ہیں”۔
سال 1779 میں انجن ہاؤزنے موم بتی اور پودے کو کھلےسورج کی روشنی میں ایک بند شفاف جگہ کے اندر 2 سے 3 دن رکھا۔جس سے یہ امید رکھی جاسکتی ہےکہ اندر موجود ہوا موم بتی کو جلانے کیلئے کافی ہوگی۔لیکن انہوں نے موم بتی نہیں جلائی۔ کچھ دنوں بعد انہوں نے اس جگہ کو کالے کپڑے سے بند کردیا اور کئی دن ایسے ہی چھوڑ دیا۔جسکے بعد جب وہ موم بتی جلانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ موم بتی جلنے کا نام نہیں لیتی۔
اس تجربے کے بعد انجن ہاؤزاس نتیجے پر پہونچتےہیں کہ اندھیرے میں پودے نے جانور کی طرح کردار ادا کیا تھا۔پودے نے اس دوران سانس لی، اندر موجود ہوا کےساتھ تعامل کیااور ہواکوصاف کرنے کیلئے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے جسکی غیر موجودگی میں، موم بتی جلنے سے قاصر رہی۔(استاد اس تجربے کو بیان کرتے ہوئے بچوں کی تجاویز مانگتے رہے)۔
Source: http://www.juliantrubin.com/bigten/pathdiscovery
متذکرہ بالامضمون کاپہلا حصہ ملاحظہ ہو۔
مصنف: نیرجا راگھون،اکیڈمک اورپیڈاگوگی کنسلٹنٹ عظیم پریمجی فائونڈیشن بنگلورو
مترجم: عبدالمومن
بشکریہ لرننگ کروسائنس اشو12،عظیم پریمجی فائونڈیشن، بنگلورو
(Learning Curve Issue 12, April 2009)
1 thought on “کلاس روم کو تجربہ گاہ بنوائیے :ذہن کو ندرت بخشئے – حصہ دوم”