مصنفہ : ندھی تواری
مترجم :سلمان وحید
کچھ دن پہلے، شیموگہ سے واپسی کے دوران میرا اپنے ایک قریبی دوست کے ساتھ ہلکا سا جھگڑا ہوگیا۔ ہم فلسفے پر بحث کر رہے تھے کہ کیا زندگی میں ’غیر جانبداریت‘ نام کی کوئی چیز ہوتی ہے؟۔ یہ سب اس وقت شروع ہوا جب میں نے اس کے ان الفاظ پر شدید اعتراض کیا کہ ‘میری زندگی میں “غیر جانبداریت” نام کی کوئی چیز نہیں ہے، میں ہمیشہ سیاہ اور سفید پر یقین رکھتا ہوں!’ اس نے مزید کہا: “میں اپنے بچوں کو یہ کبھی نہیں سکھاؤں گا کہ “غیر جانبداریت” نام کی کوئی چیز ہوتی ہے۔”
مجھے یقین ہے کہ جب میں لفظ ‘غیر جانبداریت’ استعمال کروں گی تو آپ ضرور میرے ساتھ ہوں گے۔ یہاں، غیر جانبداریت سے مراد وہ مختلف حالات/رشتے/رویے/اعمال ہیں جو عمومی طور پر ہمارے بیان کردہ اقدار کی گرفت سے باہر ہوتے ہیں۔ جب کہ عوام میں کوئی نہیں مانتا کہ رشوت دینا صحیح ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ فروغ پارہی ہے۔ اس تضاد کا حل آپ کیسے تلاش کروگے؟ “تھوڑا دیکھ لیں یا اڈجسٹ کرلیں بھائی!” والا رویہ اسی کی ایک اور مثال ہے۔ اس کو آپ اتفاقی یا حالات کے موافق کہو، اس بات کو قبول کرو یا نہ کرو، لیکن یہ غیر جانبداریت آج بھی ہمارے اندر نظر آتی ہے۔ میں مانتی ہوں کہ اس بات کو قبول کرنا بہت مشکل کام ہے، اس کے لئے ہمت چاہئے۔
اس بات نے مجھے پوری طرح سے حیرت زدہ کردیا کہ کچھ لوگ اس دنیا میں ایسے بھی ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے اعمال/خیالات/معاملات پوری طرح غیر جانبداریت سے آزاد ہیں۔ اسی ذہنی الجھاؤ میں اگلے دو سو کلو میٹر کا سفر بے اعتمادی کے ساتھ طئے کرتے ہوئے میں بہت پریشان ہوئی۔
کئی ہفتوں بعد، آخر کار ایک لمحہ آیا! کیا میرے اور میرے رفیق کے درمیان اصل نزاع یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے دنیا کو سمجھنے کے لیے ‘سائنسی آئینے’ کا استعمال کیا، جب کہ میں سماجی سائنس کے پس منظر میں کھڑی تھی؟
کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ سائنسی علوم قطعیت، درستگی/معین، صحیح یا غلط، جو ایک یقین کی حد تک قطعیت، دلائل اور اختتام بحث کا مطالبہ کرتے ہیں؟ اور وہیں دوسری طرف، میری نظر میں سماجی علوم، اپنے اندر مرونت، حسب حال، اور دوسرے نقطہ نظر کو قبول کرتے ہیں۔
میرے اس مفروضہ پر میں نے دلائل یکجا کرنا شروع کردیے
میرا یقین کرو کہ میں اس سلسلے میں جتنا زیادہ سوچتی ہوں، اتنا ہی زیادہ مجھے یقین ہوتا ہے کہ سماجی علوم کے پس منظر سے آنے والے لوگ دنیا کو ایک ایسے آیئنے سے دیکھتے ہیں جو مایوسی کی حد تک ملا جلا اور کم سے کم علٰحیدگی پسند ہوتا ہے۔ یہی وہ نقطہ نظر ہے جس کے بارے میں، میں لکھنا چاہتی ہوں اور کیسے اس موضوع نے ابتدائی سالوں کے مطالعے سے میرے سیکھنے کےعمل پر اثر ڈالا ہے۔ ملک کی سیاست کی شوقین شاگردہ کی حیثیت سے، بابری مسجد کے واقعہ پر ہونے والی ایک خوفناک بحث میرے لئے ابتدائی یادداشت رہی ہے۔
اس سانحہ کے بعد واقع ہونے والے مقامی فسادات کی بدولت، اسکول بند کر دیے گئے تھے، اور ویڈیوز کے ذریعہ مسجد کی بلندی پر موجود لوگوں کے وہ دردناک مناظر دیکھنے کے لیے میرے پاس کافی وقت تھا جو مسجد کی بنیاد کو ڈھانے کے لئے اس پر کھڑے تھے۔ بہت ہی اثر پذیر – لیکن ایک جوشیلی لڑکی جو میں تھی، میرا فوری ردعمل جانبداری اختیار کرلینا تھا۔ میں اپنے بے بس والدین سے بہت مشکل سوالات کرتی رہی۔ کچھ لوگ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کہ وہ حق بجانب ہیں حالانکہ وہی عمارت کو منہدم کررہے ہیں؟
پولس ان کو گرفتار کیوں نہیں کررہی ہے؟ بھولی بھالی، لیکن پھر بھی انتہائی متجسس اور واقعہ کو سمجھنے کے لیے بے تاب، یہ افراتفری زیادہ دیر تک نہیں ٹہری۔ یہ پریشانی مجھے اسکول اور میرے سماجی علوم کی استانی تک لے پہنچی۔ اور انہوں نے چیزوں کو شاندار طریقہ سے ایک تناظر میں رکھ کر سمجھایا! انہوں نے بلیک بورڈ کے بیچوں بیچ ایک دائرہ کھینچتے ہوئے بحث کا آغاز کیا۔ استانی نے مجھے بتایا کہ یہ دائرہ دنیا کی مانند ہے۔ انہوں نے مجھے ان تمام چیزوں کو بھرنے کے لئے کہا جن کو میں میری دنیا کا حصہ سمجھتی ہوں۔ جس طرح ہر چھوٹا بچہ کرتا ہے، میں نے بھی پانی، زمین، پہاڑ، لوگ، میرا خاندان، میرا کتا اور دیگر چیزوں کو بھر دیا۔ مجھے صاف طور سے یاد ہے کہ میں نے ہندوستان بھی لکھا تھا۔ اور پھر انہوں نے اس دائرے کے بائیں طرف ایک چھڑی کی شکل کھینچی اور کہا یہ ’ندھی‘ ہے۔ استانی نے دائیں طرف چھڑی کی ایک اور شکل کھینچی اور اس کو کسی اور کے نام سے موسوم کیا۔ انہوں نے ‘دنیا’ کے نقشہ میں کچھ دوسری چیزوں بھی بھر دیں جو دوسرے لوگوں کی خواہش کے مطابق تھیں۔
بھر استانی نے مجھے دکھایا کہ میں دنیا کا ایک حصہ دیکھ رہی تھی اور میں نے اسی کو ‘میری دنیا’ سمجھا، جب کہ وہ دوسرا شخص دنیا کے دوسرے حصہ کو دیکھ رہا تھا، تو اس طرح ہم ایک ہی دنیا کے دو مختلف جہتیں دیکھ رہے تھے۔ استانی نے کہا، یہ اصل مسئلہ ہے۔ لوگ ایک ہی عمارت میں دو مختلف حقیقتوں کو دیکھ رھے ہیں (مسجد اور مندر) اسی لئے وہ اسے منہدم کرنا چاہتے ہیں۔ پہلی مرتبہ میں ایک لمحہ فکریہ میں پہنچ گئی اور سمجھا کہ ایک ہی حادثہ یا عمل کے پیچھے دو مختلف سوچ / نقطہ نظر کام کررہے ہوتے ہیں۔
یہ بات کہ لوگوں کی دو جماعتیں ہوتی ہیں جو اپنے اپنے سچ پر یقین رکھتے ہیں، اس بات نے مجھے سخت ناگواری کا احساس دلایا! سن شعور کو پہونچنے کے بعد، یہ بات میرے لئے بہت ہی اہم اور واضح ہوگئی کہ لوگ مختلف سیاق و سباق میں کام کرتے ہیں۔
لوگ مختلف سیاق و سباق میں کام کرتے ہیں۔
حالیہ دنوں ہی میں، میں امریکہ کہ ایک آؤٹ ڈور لیڈر شپ کورس پر تھی اور ایک واقعہ نے مجھے پھر ماضی کے دور میں پہونچا دیا۔ میں وہاں امریکہ کے نوجوانوں کے ایک گروہ کے ساتھ تھی، ویرانوں میں ہم ساٹھ دنوں تک بے یار و مددگار رہ رہے تھے۔ کسی حد تک ٹیم کی سماجی حرکیات قابل چیلنج تھی۔ ایک موقع پر، لوگ میرے طور طریقوں اور ذخیرہ الفاظ کے سلسلے میں بھی پریشان تھے- میں ‘براہ کرم’ اور ‘شکریہ’ کے تادیبی الفاظ کا استعمال ہر دوسرے موقعے پر نہیں کررہی تھی اور یہ بات ہماری رات کی میٹنگ میں 2 گھنٹے تک قابل بحث بنی رہی۔
کیا میں اپنی مختلف ثقافتی پرورش کے بدولت تنقید کے زد میں تھی؟ کیا ہم، ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے خود کو اتنا ہی الفاظ میں بیان کرتے ہیں؟ کیا ہماری بات چیت جداگانہ ہے؟ کیا یہ میری طرف سے صحیح ہے کہ میں کسی کو ان کے مشاہدے کی بنیاد پر جج کروں جب کہ مجھے اندازہ ہے کہ میری پوری ٹیم ایک مختلف ثقافتی تناظر کے تحت کام کر رہی ہے؟ سماجی علوم نے مجھ پر یہ راز آشکار کیا کہ یہ اصل میں ایک ثقافتی خلاء ہے، فی الحقیقت ان کے مشاہدات میں ذاتی خلش یا بددیانتی نھیں ہے اور پھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ مکمل اطمینان کے ساتھ تھی۔
ایک اور مثال کہ کیسے اس موضوع سے میرے سیکھنے کے عمل نے مجھے اس بات کے سلسلے میں بالکل معروضی ہونے کے لائق بنایا کہ ایک نازک صورت حال کیسے ہو سکتی ہے۔ معروضیت اور مختلف نقطۂ نظر کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے، اسکول کے دنوں کی ایک بات یاد آتی ہے۔ اکثر شہریت کے مضمون میں طلباء کی طرف سے انتہائی متنازعہ مقام کی شکل میں پیش کیا جاتا تھا۔ – خاص کر جب بات پارلیمانی جمہوریت کی ہو۔کرپشن، انتخابات اور سودے بازی کے سلسلے میں مشکل سوالات شامل کیے گئے لیکن ہمارے اساتذہ نے ان سب کے بارے میں بڑی ہی خوبصورتی سے ہماری رہنمائی کی۔میں نے جو سمجھا کہ اُنہوں نے فہم و بصیرت کی خاطر ہمیں کوئی جواب نہیں دیا بلکہ بحث کو کھلا چھوڑ دیا۔
اکثر ہم طنز کستے ہوئے اپنی استانی سے سے کہتے، کہ “ان کو بھی ایک موقف لینا چایئے”۔ کیا ہم کو یہی نہیں سکھایا گیا ہے؟ میں یہ کہوں گی کہ اسکول اور زندگی میں کسی موقف کا لینا اپنی بقاء کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘صحیح’ یا ‘غلط’ کو سمجھنے کے حوالے سے میری ریاضی کے استانی کے الفاظ نے ہمیشہ میرے محدود تصور کا تعاقب کیا ہے۔
بچپن میں اکثر میں یہ سوچتی تھی کہ صحیح جواب دو کیوں نہیں ہو سکتے؟ دنیا کیوں ہمیشہ حتمیت میں ڈوبی ہوئی تھی؟ ہمیشہ سے یا تو” یہ” صحیح تھا یا تو “وہ”۔شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ میں نے اپنی سماجی علوم کی کلاس میں سب سے زیادہ لطف اٹھایا ہے جہاں مجھے ایک دوسرے کا دفاع کیے بغیر دو مختلف اور متضاد نقطہ نظر کو سمجھنے کی اجازت دی گئی تھی۔ مختلف معاملوں پر قائم کی گئی میری آراء کو مکمل طور پر تردید کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔
مثال کے طور پر، تاریخ کے معاملے میں ہمیشہ میں یہ سوچتی رہتی تھی کہ جب بادشاہوں نے جنگیں لڑیں اور اپنے علاقوں کو مزید وسعت بخشی تب ایک عام آدمی کیا کر رہا تھا۔ میں نے بہت وقت یہ سوچنے میں گزارا کہ کیا ہر دوسرا شہری, زمانہ قدیم میں سپاہی تھا۔ کیا اس زمانہ میں ہماری طرح عام لوگ رہتے تھے یا آپ کو خاندانی، ماہر دستکار، فوجی یا برہمن ہی ہونا ہوتا تھا؟
کیا لوگ صرف جنگیں لڑا کرتے تھے یا انہیں بھی پرامن زندگی کو گزارنے کا موقع ملا تھا؟ بادشاہوں کے ‘تاریک’ پہلو کے بارے میں اتنا کم کیوں سنا گیا ہے؟اکثر، یہ سوالات اور الجھنیں، میرے استاد کے ناکافی اشارات کے سبب میرے تخیل/تصور پر رہ جاتے تھے۔ خوبصورت بات یہ تھی کہ استاد میری نئی چیزیں سیکھنے اور ان کی ضررورتوں کے مطابق نصاب کو بدلنے کے سلسلے میں آزاد تھے۔ ‘ایک صحیح’ یا ‘ایک غلط’ کے حوالے سے میرا مذاق نہیں اڑایا گیا۔ صحیح اور غلط کا یہ تنوع انتہائی حوصلہ افزا تھا۔
مصنفہ کے بارے میں : ندھی تیواری تقریباً ایک دہائی سے میڈیا کی وکالت اور دستاویزات سے وابستہ ہیں۔وہ ایک فری لانس مصنفہ ہیں، انہوں نے ماحولیات، ترقی اور شہری مسائل پر کئی قومی اور بین الاقوامی اشاعتوں میں حصہ لیاہے۔ وہ فی الحال عظیم پریم جی فاؤنڈیشن میں ایڈوکیسی اور کمیونیکیشن فنکشن کی مشیرہ ہیں۔ اپنے شہر پر مبنی کام کے علاوہ، وہ شراوتی کی مقامی برادریوں کے ساتھ بھی مل کر کام کرتی ہیں۔ وادی، کرناٹک میں ایک ماحولیاتی ٹورزم پہل کے تحت جس کی بنیاد انہوں نے رکھی ہے۔
بشکریہ : لرننگ کرو – عظیم پریم جی یونیورسیٹی