بچوں کے لئے درجہ واری(گریڈیڈ)ریڈرس کی تیاری

مصنف : کنچن بینرجی

مترجم: عبدالمومن

میں اس مضمون میں اپنے ان تجربات کو بیان کروں گی جو کرناٹکا میں کنڑا اورچھتیس گڑھ میں ہندی کی اول اور دوم جماعتوں کے لئے ریڈرس کی تیاری کے دوران میرے ساتھ  ہوئےتھے۔دونوں کاوشیں یونیسیف اور ریاستی حکومتوں کے اشتراک سے قائم ہوئے پلیٹ فارم سے ملحق تھیں۔

ایسا بچہ جو اول جماعت میں داخل ہوتا ہے، کبھی کبھار کچھ اسکولی تجربات سے لیس  ہوکر آتا ہے اورکبھی کبھار مکمل نئے ماحول سے نبرد آزما ہوتا ہے۔جہاں ہر بچے کے ہاں مختلف  ذخیرہ ہائےالفاظ و تجربات کا مجموعہ ہوتا ہے وہیں  اس ذخیرے کی اعلی افزونی ان کو میسر گھر اور اطراف کے ماحول پر منحصر ہوتی ہے۔

تعلیمی لحاظ سے محروم گھرانوں کے بچے طبع شدہ (پرنٹیڈ)الفاظ کے تجربے سے محروم رہیں گے۔ایسے میں اسکول کے نظم کے اوپر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں اور”کتابوں و مطالعہ” کی دنیا  کے درمیان اٹوٹ اوردلکش پل تعمیر کرے اور طباعت سے معموراشیاء اور ماحول مہیا کرے۔

ریڈر خوبصورت تصاویر کے ساتھ!

جیسا کہ عام طور پر تسلیم کیاجاتاہے کہ مطالعہ کے لئے بصری اورسمعی امتیاز کی قابلیت، آنکھوں اور ہاتھوں میں تال میل اور ضابطہ کشائی کی منطق(ڈیکوڈنگ لاجک) چنداہم شرائط ہیں۔ بچہ ایک بار الفاظ سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے تو آسان جملوں اور مختصر اقتباسات(پیراگراف) کا وقت ہوتا ہے، اور یہی وقت مناسب ہوتا ہے کہ انہیں ریڈرس سے متعارف کروایاجائے۔

ریڈر کیا ہوتا ہے ؟: ریڈر ایک کہانی کی کتاب سے مختلف ہوتا ہے /ہوتی ہے، ریڈرس کی درجہ بندی اس طرح کی جاتی ہےکہ ہر درجہ کے ریڈرمیں الفاظ کی تعداد اور ان کی پیچیدگی بڑھتی جاتی ہے۔ ابتدائی ریڈرس میں 3الفاظ کے جملوں کا استعمال ہوتا ہےجن میں اکثر معلوم الفاظ ہوتے ہیں اور نسبتاً آسان کہانی بھی ہوتی ہے ۔اگلے درجہ کے ریڈرس میں الفاظ کی تعداد کثیر ہوتی ہے،  بڑے اور پیچیدہ بھی ہوتے ہیں ۔ریڈرس کو اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ بچہ استاد کی مدد لے کر اسےآسانی سے پڑھ سکے۔  پہلی جماعت کے لئے ہم نے مشترکہ ریڈرس ترتیب دئے، جنہیں ایک سے زیادہ بچے پڑھ سکیں جن میں بچوں کے لئے ایسا مواد ہوتا ہے جن میں پہلے سے معلوم الفاظ موٹے فونٹ  میں کتاب کے سیدھے جانب والے صفحات میں ترتیب دیے گئے تھے جب کہ بائیں جانب والے صفحات میں نسبتاً پیچیدہ اور بڑے الفاظ جو چھوٹے فونٹ میں شائع ہوئے تھے۔ان سے ایسی کہانی ترتیب دی گئی جو استاد کو کلاس میں پڑھانا تھا  اور انہیں جماعت دوم اور سوم کے بچوں کوآہستہ پڑھانے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ریڈر میں استعمال کی جانے والی زبان:انگریزی زبان میں عمر اور درجہ کے حساب سے الفاظ موجودہیں جب کہ ہندوستانی زبانوں میں  یہ کم پائے جاتے ہیں۔ کئی ریاستی نصابی کتب میں مطالعہ سے متعارف کرا نے کے لئے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو دراصل “الفاظ کی فہرست” پر منتج ہوتے ہیں۔ کرناٹکا کےنصاب میں حروف کے سیکھنے کے طریقہ موجود ہیں جنہیں ہم نے بنیاد کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ابتدائی ریڈرس میں ہم نے ایسے جملوں پر زیادہ انحصار کیا جن میں تکرار، ملے جلے الفاظ ہوں ملے جلے الفاظ نہ صرف کانوں کو بھاتے ہیں بلکہ ماہرین ملے جلے خاکوں کی سمجھ کو بچےکی نشو نما کا سنگ ِمیل قراردیتے ہیں۔ بغیر کسی مفہوم والے الفاظ بھی بچوں کو بھاتے ہیں اور ایسے وقت جب حروف و جملوں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں تب ان سے کام لیا جاسکتا ہے۔

ابتدائی ریڈرس میں 7 یا 8 الفاظ ہوتے ہیں جو 2 یا 3 حروف پر مبنی ہوتے ہیں، اور ساتھ ہی آسان قواعد کا  استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہم نے حروف کی مخصوص درجہ بندی  پرتوجہ دی جن میں کانسونینٹس اور واویلس کا کم استعمال کیاجاتا  اور ایسے الفاظ کا استعمال  کیا گیا جن میں شدت اور ٹیڑھ کم ہوتی ہے۔چونکہ اسکیم پر عمل ہوتا ہے،Multi-Grade-Multi-Levelکرناٹکا اور چھتیس گڑھ میں اول سے دوم جماعت کے درمیان سیکھنے کا عمل آسان ہوتا جارہا ہے۔

ابتدائی ریڈر اور تصاویر!

الفاظ کی فہرست بنائیں:۔نئے الفاظ کی فہرست بنانے کے لئے ہم نے چند طریقے اختیار کئے ۔اساتذہ اور کلسٹر کے ذمہ داروں نے(جنہوں نے بچوں کی زبان کو گھروں میں،اسکول جاتے وقت، اور میدانوں میں کھیلتے وقت ) نوٹ کیا،  ان کی اصطلاحات کو جوں کا توں نوٹ کیا۔اس فہرست کو اسم، فعل اورصفت میں تقسیم کیا گیا۔ابتدائی ریڈرس میں پہلے اسم اور بعد میں دیگر اجزائے زبان کا استعمال کیاگیا۔اس  فہرست سے ہمیں اس عمر کے بچوں کی سوچ ، رجحانات اوران کے آپس کی گفتگو کے عنوانات کا اندازہ کرنے میں آسانی ہوئی۔

ایک اور طریقہ وہ ہےجس میں بچوں کے لٹریچر جیسے کہانیوں کی کتابیں، جرائد اور نصابی کتابیں پڑھ کران سے مشترک الفاظ اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں الفاظ کا تعدد (ان کے استعمال کئے جانے کی تعداد)کی گھٹتی ترتیب بھی بنائی جاسکتی ہے۔کچھ جگہوں پر “سیکھنے کی سیڑھی ” کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ابتدائی جماعتوں کے ریڈرس میں خود ساختہ تھوپے گئے الفاظ اور ریڈر کی طوالت چیلنج بھی بن سکتے ہیں۔

ایک باتصویر کہانی!

ان مشقوں کے دوران مختلف علاقوں میں ڈائیلکٹ کے فرق کا مسئلہ درپیش آیا۔ کیوں کہ کتابیں عموماً ساری ریاست کے لئے چھاپی جاتی ہیں، سب سے آسان طریقہ یہی ہوگا کہ سب کے لئے ایک جیسا مواد ہو، اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہر علاقے کے ڈائیلکٹ کے مطابق کتابیں چھاپی جائیں۔ چھتیس گڑھ کی بہ نسبت کرناٹکا میں زبان میں علاقہ واری  فرق کم ہے۔اس مسئلہ کے جزوی حل بھی ہو سکتے ہیں اور مقامی ضروریات کے مطابق موزوں حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کرناٹکا کے ریڈرس میں ہم نے “پکشنری”(پکشنری دراصل انگریزی الفاظ Picture اورDictionary یعنی، تصویر اور لغت سے بنا ہے، جو تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے متعلقہ الفاظ کو پہچاننے کی مشق کو ظاہر کرتا ہے۔)  کا استعمال کیا، مثال کے طور پر کنڑا لفظ “جَھلَکَ” جس کا مطلب نہانا ہوتا ہے، کا استعمال کیا گیا درآنحالیکہ یہ لفظ ریاست کے کچھ ہی حصوں میں استعمال کیا جاتا ہے،  ساتھ ہی ہم نے ایک تصویر کا بھی استعمال کیا۔

ہم نے “اسنانہ” لفظ استعمال نہیں کیا کیوں کہ اس لفظ میں دو مختلف کانسونینٹس کا استعمال کیا گیاہے جو اُس عمر کے بچوں کے لئے موزوں نہیں تھےچوں کہ بچے ابھی اتنی مہارت نہیں رکھتے ہیں ۔ چھتیس گڑھ میں ریڈرس کے لئے ہر صفحہ پر بائیں جانب مقامی ڈائیلکٹ میں الفاظ کو شائع کیا گیا جو استاد اونچی آواز میں پڑھے گا۔ جبکہ دائیں جانب  ایسے الفاظ درج کئے گئے جو پوری ریاست میں استعمال ہوتے ہیں اور جنہیں بچہ بڑا ہوکر بھی استعمال کرےگا۔

اس حقیقت سے قطع نظر ممکن نہیں کہ لب و لہجہ میں تغیرات (جو بولنے میں زیادہ نظر آتے ہیں )دراصل ایک ڈئیلکٹ کو دوسرے سے ممیز کرتے ہیں ، محض شائع شدہ الفاظ ڈائیلکٹس کے مابین اس فرق کی وضاحت نہیں کرسکتےہیں ۔

ریڈرس کا ڈیزائن :۔بصری کشش دراصل بچوں کو ریڈرس کی جانب پہلے راغب کرتی ہے اس سے پہلےکہ وہ ریڈرس پڑھیں۔ خوشگوار، اچھے رنگوں اور واضح تصاویر کا استعمال بچوں کو بھاتا ہے ،مختلف اسٹائیلس کی درجہ بندی بچوں کے لئے مطالعہ کو رنگا رنگ کرتی ہے۔ فن کار حضرات کارٹون یا گرافک اسٹائیلس کا استعمال کرسکتے ہیں مزیدبرآں وہ مقامی طریقہ ہائے زندگی ،ثقافت ،تنوع اور جنس کے تئیں حساس ہوں، ریڈرس کی بصری شکل و احساس، کتاب سے جتنا ممکن ہو الگ ہونا چاہیے۔

رنگ بھری تصاویر اور بچے!

ایک بار ریڈرس کا مسودہ تیار ہوجائےتو متعلقہ طلباء اساتذہ کے ذریعہ اس کی جانچ پڑتال کرنا بہتر ہوگا، ہم نے ریاست کے مختلف حصوں میں ریڈر کی زبان اور بصری مثالوں کے ضمن میں جانچ کی ۔ایک دفعہ میں نے شمالی کرناٹکا کے ہلیال گاوں کے ایک بچہ کو ریڈر دکھایا اور ریڈر میں موجو ریچھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ ریچھ کیا کررہا ہے، بچہ نے پوچھا “کیا وہ ریچھ ہے ؟،ریچھ کالا ہوتا ہے جب کہ کتا بھورا ہوتا ہے”۔ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ فنکار نے نیشنل جیوگرافک پروگرام میں دکھلائے گئے عمومی بھوری ریچھ کی تصویر آزمائی کی لیکن اس ریچھ کے ہندوستانی کزن کالے ریچھ کو بھول بیٹھے! اس تاثر کے بعد فنکار نے اپنے ڈیرائن میں تبدیلی بھی کی۔ ہم نے ریڈرس کو تیسری اور چوتھی جماعتوں کے بچوں کو بھی دکھلایا، وہ بچے بائیں جانب موجودطویل جملوں کو پڑھتے ہوئے لطف اندوز ہوئے جو دراصل استاد کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دئے گئےتھے۔ اول جماعت کے لئے 50اور دوم جماعت کے لئے مزید  50 ریڈرس بنائے گئے تھے، جو کرناٹکا میں آج نلی کلی پراگرام میں سیکھنےسکھانے کے مواد کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔

مطالعہ کے علاوہ :۔ریڈرس کا استعمال کرتے ہوئے مختلف مشقیں بھی کی جاسکتی ہیں۔ ایسی چھوٹی مشقی کتابیں (ورک بک) بنانا آسان ہوتا ہےجن میں بچوں سے کہانی سے متعلق سوالات کئے جائیں اور بصری مثالوں کو لے کر اُن کی سمجھ کا اندازہ کیا جائے، الغرض اس طریقہ سے بچوں میں لکھنے اور سمجھنے کا مادہ پیدا کرسکتے ہیں ۔

کلاس کی دیوار خوبصورت تصاویر سے سجی ہوئی۔

ایسا کلاس روم جو  پرنٹ (طبع شدہ مواد)سے مالامال ہو:۔ پرنٹ سے مالامال مرکب لفظ ہے جو ایک کلاس روم میں پرنٹ شدہ مواد جیسے علامتیں ،دیواری پوسٹرس،لفظی نشان بلیٹن بورڈس ،چارٹس ،کہانیاں اور کتابیں وغیرہ کا احاطہ کرتا ہے۔کلاس میں ایک مطالعہ کا کنارہ ہوسکتا ہے اور ایک رائیٹنگ کا کنارہ (رائٹنگ کارنر) ہوسکتا ہے۔لٹریچر کی مختلف توجیہات در اصل بچوں کو عملی انداز میں مطالعہ کی جانب اُبھارتی  ہیں۔ بچوں کو یہ باور کیا جانا چاہیے کہ طبع شدہ مواد (پرنٹیڈ مٹیریل) ان کے اطراف علامتوں بِل بورڈس ،لیبلس(نشان) ،خطوط، شکریہ نوٹس، کتابوں، جرائد(میگزین) اور اخباروں کی شکل میں موجود ہوتا ہے اور طبع شدہ مواد کا بہتر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے سماجی پس منظر میں ابتدائی سطح پر خواند گی (لٹریسی) کے تجربات پہلا قدم ہونا چاہئے جو آگے بڑھ کر مطالعہ کو لے کر پسندیدگی کی طرف ابھارے،مطالعہ اور بچوں کی ترقی کے عنوان پر مہارت رکھنے والی خاتون سیالی شیوٹز کہتی ہیں ،

“ایسا بچہ جو پڑھتا ہے ،ایک دن میں سات نئے الفاظ سیکھتا ہے اور سال میں پچیس سو نئے الفاظ اس کی زبان کا حصہ بنتے ہیں  اور وہ پوری زندگی کے لئے عملی سرمایہ بن جاتا ہے “۔

کنچن بینر جی (اکشرا فائونڈیشن کی مینیجنگ ٹرسٹی) ہیں ،انہوں نےکرناٹکا کی ابتائی جماعتوں کے لئے کتابی مواد کی تیاری پر کام کیا ہے۔وہ نوخیز بچوں پر بھی لکھتی ہیں بالخصوص دو لسانی کہانیاں۔

ان سے اس میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے : [email protected]

بشکریہ: لرننگ کرو، عظیم پریم جی فاؤنڈیشن

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے