1929میں شائع شدہ سائنسی اساتذہ کی ایک کتاب کے مطابق “ایک کامیاب سائنس ٹیچر وہ ہے جو اپنے مضمون کی سمجھ رکھتا ہو، جس نے سائنس سے جڑی شاخوں کا وسیع مطالعہ کیا ہو جو جانتا ہو کہ سائنس کس طرح پڑھا یا جاتا ہے، جواپنے اندر عام فہم انداز میں سمجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو، جو جوڑ توڑ میں مہارت رکھتا ہو، جو demonstrateکرنے کے علاوہ تجربہ گاہوں میں بھی وسائل رکھتا ہو، جو تھوڑا فلسفی بھی ہو اور جو تاریخ سے بھی واقفیت رکھتا ہو کہ طلبہ کے گروہ میں بیٹھ کر وہ عظیم سائنسدانوں جیسےNewton, Galileo, Faraday, Darwin کی زندگیوں کے کارناموں اور ان کے بارے میں بتاسکے، جو سرگرم ہو اور اسے اپنے کام پر پورا بھروسہ ہو۔”
80سال بعد یہ قول ثابت آتا ہے، کوئی اپنی پسند سے مثالی سائنس ٹیچر پر کئے اس بیان میں کوئی اپنی پسند سے مزید اضافہ کرسکتا ہے، صنفی تعصب سے پرے ہوکر، اس پر عمل کرنا شایدIdealisticلگے لیکن، یہ استاذ کو پڑھانے ایک صحیح نقطہ نظر دیگا۔ استاد کے تعلیمی پروگرام کو سلیقے سے ڈیزائن کریں تاکہ اس مقصد کو حاصل کرپائیں، خصوصا اچھے استاد کی تربیت میں کیا ہونا چاہیے؟
اساتذہ سے بات چیت کے دوران میں نے کوشش کی کہ سائنسی تعلیم کے اصولوں کی بنیاد پر انہیں ایک خصوصی موضوع یا سوال پر دریافت کرسکوں نہ کہ Powerpoint Presentation یا لکچر پر، ان میں ایک سوال گرتے ہوئے اجسام پر ہے، اگر ہم اونچائی سے ایک ہی وقت پر ایک ساتھ بھاری جسم اور ہلکے جسم کو گراتے ہیں تو مندرجہ ذیل میں سے کس چیز کے ہونے کی امید ہے:
.1 ہلکا جسم بھاری جسم سے پہلے زمین پر پہنچے گا۔
.2 بھاری جسم ہلکے جسم سے پہلے زمین پر پہنچے گا۔
.3دونوں ایک ساتھ ایک ہی وقت میں زمین پر پہنچتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ اکثر لوگ دوسرے آپشن کو چنتے ہیں، ابتدائی طور پر ان کا یہ رد عمل ان کے high schoolسطح کی سائنسی علم کی کمی کو ظاہر کرتاہے۔لیکن ان کے اس الجھن کو سمجھا جا سکتا ہے۔اس موقع پر ہمیں ہمارے روز مرہ کے وہ تجربات یاد آتے ہیں جس میں ہم پنکھوں یا کاغذ کے ٹکڑوں اور سوکھے پتوں کو پتھر کے مقابل بہت آہستگی سے گرتا دیکھتے ہیں، بلکہ مشہور یونانی فلسفی ارسطو کو بھی اس میں شبہ تھا کہ گرتے ہوئے جسم کی رفتار اس کے وزن کے متناسب ہوتی ہے، اس کے تقریبا دو ہزار سال بعدگیلیلیونے ارسطو کے اس نظریہ پر Pizza Tower سے مختلف نوعیت کے دو بھاری جسامت والے گیندMusket & Cannon balls) (کو گراتے ہوئے سوال کھڑا کیا، تعلیمی محققین نے یہ انکشاف کیا کہ naive یا بدیہی سے غیر بدیہی (intuitive to counter intuitive) کی طرف منتقلی تصوراتی ہے۔
اس طرح کے تصورات کو’’ سخت جگہوں‘‘ میں شامل کرنے سے اور ان تصورات کی وضاحت کرنے اس طرح کے اخدامات کو دہرانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تصورات کو استاد اپنے شاگرد کے ساتھ عقلی طور پر جانچے، اس عمل سے بھی اس کی شروعات ہوسکتی ہے جو سوچنے پر ابھارے۔ ایک نوٹ پیڈاور ایک کاغذ کے ٹکڑے کے ساتھ اس نظریہ پرکونساتجربہ کرنا آسان ہوگا ؟ایک میز یا کرسی پر کھڑے ہوکر اس اونچائی سے کاغذ کے ٹکڑے اور نوٹ پیڈکو نیچے کی طرف گراکر ارسطو کے شبہ کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
کیا ہوگا اگر کاغذ کو نوٹ پیڈ کے اندر رکھ کر دونوں کو ساتھ نیچے کی طرف گرایا جائے تو سب اس بات پر اتفاق کرینگے کہ نوٹ پیڈ کاغذ کے ٹکڑے لیکر ایک ہی وقت پر زمین کو چھوئے گا، یہ تجربہ ظاہر کرتاہے کہ یہ اس نظریہ کی ایک چھوٹی سی عملی کامیابی ہے۔
اگلے تجربہ میں کاغذ کے ٹکڑے کو پیڈ کے اوپر اس کے برابر میں رکھ کر کیا جاسکتا ہے،۔کاغذ یا پیڈ میں سے کون سب سے پہلے زمین کو چھوئے گا؟ مشکل ہی سے ایسے لوگ ملیں گے جن کو اس میں شبہ ہے کہ پیڈ کاغذ کو پیچھے چھوڑ کر بہت پہلے زمین پر آئے گا، لیکن تجربہ کے نتائچ ہمیشہ حیرتناک ہوتے ہیں یہ تجربہ خود سے کریئے اور دیکھئے کہ کاغذ پیڈ کے ساتھ ہی زمین پر گرے گا،
(۱) کچھ لوگ کو یقین نہیں آتا اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی ترکیب ہوگی اس لیے وہ خود تجربہ کر کے دیکھتے ہیں اور وہ اپنی سائنسی جذبے کے سا تھ ا ستقبال کئے جانے اور حوصلہ افزائی کے لائق ہیں ۔ایک متحرک مباحثہ اس طرح ہے کہ کیا ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ بھاری جسم ہلکے جسم کے مقابل ان کے وزن کے متناسب پہلے زمین پر آگرے گا؟ اتفاق رائے سے یہ بات نکل کر آتی ہے کہ اس معاملہ میں دونوں اجسام کے نیچے کی طرف ان کے گرنے کے دوران ہوا کی رکاوٹ کی وجہ سے فرق پیش آیا لیکن ابھی تک اس بات میں شبھات موجود ہیں جو اس چیز کو قبول نہیں کرتا کہ وزن اصل محرک نہیں ہوتا اور یہ تب ہوتا ہے جب کہ اگلے تجربہ کے لیے ماحول بن چکا ہوتا ہے جس میں کاغذ کو مروڑ کر ایک تنگ گیند کی شکل دے دی گئی اور اسے نوٹ پیڈ کے ساتھ نیچے کی طرف گرا نے کا تجربہ کیا گیا، یہی لگے گا یہ دونوں ایک ساتھ نیچے گرینگے لیکن اس میں بھی شبھات ظاہر ہوئے ہیں کہ انہیں ایک ہی وقت پر فوری گرایا گیا یا نہیں ؟اس نے چند گروہ کو یہ اخذ کرنے اس پر ابھارا کہ وہ کاغذ کی گیند اور نوٹ پیڈ کے ایک ہی وقت پر ایک ہی اونچائی سے گرنے پر یقینی بنائیں، وہ اس بات کو بھی یقینی بناناچاہتے تھے کہ دونوں اجسام کے زمین کو چھونے کے وقت کا بھی صحیح طور پر مشاہدہ کریں۔ موبائیل فونس اورسو ویں حصہ تک وقت کو ناپنے والےStopwatchesاساتذہ کی جیب میں موجود رہتے ہیں۔
تجربہ کو وضع کرنے میں وقت’’برباد‘‘ کرنے سے بہتر ہے ممکن حد تک صحیح طور سے ان تین بیانوں کے تجرباتی طور پر قابل تصدیق نتیجے کو تیار کرنے کی کوشش کریں جو زیادہ قیمتی ہوگا۔
اور اب باری ہے گیلیلیو کے اور اس کے تجربات پر 100پاؤنڈ Cannon Ball اور آدھے پاؤنڈ کےMusket Ball سے عمل کرنے کی۔ ہم نے کاغذ کی گیند اور نوٹ پیڈ سے جو تجربہ کیا، کیلیو کے مطابق پیزا ٹاور سے ایسا تجربہ پہلے ہی ہوچکا ہے اسی بات نے گیلیلیو کو یہ دعوی کرنے پر قائل کیا کہ ارسطو نے کبھی بھی اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کوئی تجربہ نہیں کیا اور اسی لیے وہ غلط ہے لیکن اس نے اپنی بحث کو ایک دلچسپ موڑ دیا، یہ تبصرہ اس کی کتاب میں دو علمی مکالموں کے طرز پر لکھا گیا ، مکالمہ3 مذاکروں میں انجام پاتا ہے۔
Salvito گیلیلیو کے ذاتی تبصرہ کو پیش کررہا ہےSimplicid ارسطو کے نظریہ کو بیان کررہا ہے اور Sagredo غیر جانبدار عقلی ذہن کے مالک تبصرہ نگار کی حیثیت سے دونوں کے بیچ ہونے والے مکالمہ کو چلا تا ہے۔
کوئی بھی گیلیلیو کی زندگی کے مختلف پہلوؤ کو ڈرامائی انداز میں بیان کرسکتا ہے، لیکن گیلیلیو کے تبصرہ کا اصل جوہر وہ ہے جو نتیجے کی سطور میں بیان کیا جارہا ہے’’ارسطو کے شبہ کو قبول کر کے، اگر ہم دونوں گیندوں کو آپس میں باندھ کر نیچے کی طرف چھوڑیں، تب نظریاتی طور پر دو نتائج ہمارے سامنے ہوں گے چونکہ ہلکی گیند نیچے گرنے میں زیادہ وقت لیتی ہے ، لہذا وہ بھاری گیند کی رفتار بھی سست کردیگے اور اس طرح بھاری گیند نیچے گرنے میں جتنا وقت لیگی اس سے زیادہ وقت ان دونوں گیندوں کے لیے درکار ہوگا، البتہ اگر دونوں کے اوزان اکٹھا کرلیئے جائیں تب یہ ایک بھاری جسامت والےCannon Ball سے بھی بھی زیادہ وزنی ہوجائے گا۔ دہ Deductionsاصول بھی منطقی ، اور ایکدوسرے کے متضاد ہیں، گیلیلیو نے اس بات پر زور دیا کہ ابتدائی نتیجہ مناسب نہیں کہ گرتے ہوئے جسم کا وزن یہ راست طور پر گرتے وقت یا گرتے ہوئے جسم کی رفتار پر اثر نہیں کرتا ۔جو کہ اصلا شکل، جسم کی کثافت، واسطے کی کثافت، واسطہ کا حرکت کرنا جیسے مختلف عناصر پر مبنی ہوتا ہے۔ اس نظریاتی تبدیلی /ترقی اور Pain Stackingتجربات کے پیچھے دو دہائی لگے جو سائنس کے دو نئےIdeologies اورThought Experiments کو متعارف کراسکے۔
تب گیلیلیو نے تصوراتی اور منطقی چھلانگ لگائی، یہ کہتے ہیں کہ بلاواسطہ کی حالت میں خلاء میں بھاری اور ہلکا جسم ایک ہی وقت میں گریں گے، لیکن اس کے لیے صبر اور بار بار اس تجربۃ کو دہرانے کی ضرورت ہے تاکہ اس گروپ کے تمام افراد کو اس نظریاتی تبصرہ کو جذب کرنے میں مدد ملے۔ اس منطقی انداز کی تربیت، سائنس کو سیکھنے کا ضروری حصہ ہے جو تجرباتی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے۔
1971 میں چاند کی طرفApollo 15 Missionکے ایک ماہر فلکیات ڈیوڈسکاٹ نے ایک ہتھوڑا اور ایک پنکھ گرایا،ویڈیو بتاتا ہے کہ دونوں غیر ہوائی سطح تک پہنچنے تک ایک ہی رفتار سے گر رہے ہیں، جو تجرباتی طور پر گیلیلیو کے منطق کی تصدیق کرتا ہے۔
ؓآگے کی بحث میں کوئی ایک اس تصوراتی ترقی کے اہم پہلو کو اجاگر کرسکتا ہے، گیلیلیو کے تجربہ نے یہ ثابت کردیا کہ ارسطو کا شبہ صحیح نہیں تھا لیکن یہ کہہ کر کہ اس پر ہوا کا اثر ہوتاہے وہ خود اپنے دعوی کو بھی مکمل درستگی کے ساتھ تصدیق نہیں کرسکا، جو کہ بھر پور سچائی اور دلیل کے ساتھ ریکاڈ کیا گیا تھا۔
کلاس میں بچوں کو گہرائی سے سوچنے پر ابھارنے کے لیے کئی ایک طرح کے دلچسپ سوالات ہوسکتے ہیں، ارسطو جیسے ذہین آدمی نے آخر ایسا دعوی کیسے کردیا؟ وہ کیانظریاتیPremisesتھے جس نے اسے ایسا کرنے پر آمادہ کیا؟ کیا ہم اب بھی یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ دوسرےPlanet کی خلاء میں ہتھوڑا اور پنکھ ایک ساتھ ایک ہی وقت پر گریں گے؟ اس طرح کے کچھ سوالات مزید علمی سوالات کو کھول سکتے ہیں اور بہت کچھ سیکھا سکھایا جا سکتا ہے۔
ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ، کیا آج کے اساتذہ اس طرح کے سوالات کو حل کرنے کی گہری سمجھ رکھتے ہیں جس طرح ہم نے شروعات میں پوچھے؟ جواب ہوسکتا ہے شاید ہاں یا شاید نہیں، لیکن اگراعتماد کے ساتھ کچھ کہا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ ایسے تصوراتی سفر کا آغاز کریں گے جو انہیں گیلیلیو کے Incline Planet اورPendulumsاور آگے بڑھ کر نیوٹن کے قانون مقناطیسیت اور حرکت کی طرف لے جائے جو حرکات کو گہرائی سے سمجھے جیسے نیوٹن نے کیا۔
جنات کے کاندھوں سے حد سے پرے دیکھئے، انہیں تیار کرو‘‘ اس طرح کے اجلاس کے بعد ٹیچرس کے جذباتی اور سنجیدہ رد عمل زیادہ اطمینان بخش اور حوصلہ کن ہوتے ہیں۔
اور اب اس طرح کے مفروضوں کو پیچھے رکھنا باقی ہے، سائنس کو بڑھانے اور عمل کرنے کا طریقہ اس کے طریقوں کی دوہری سمجھ پر مبنی ہے، ایک تصوراتی اور دوسرا اس کے ساختوں کے اعتبار سے ، یہ دوہری سمجھ ہماری قابلیت اور اعتماد کے ساتھ سائنس کو مشق کرنے میں مدد دے گی۔
جس طرحEinsteinنے بہت ہی وضاحت کے ساتھ کہا:’’کوئی بھی تجربہ، تصوراتی منصوبوں اور قیاس آرائیوں کے بغیر نہیں ہوتا، اور کوئی بھی قیاس /منصوبہ جس کا تصور تحقیق کے قریب ظاہر نہ ہو‘‘۔
There is no empirical method without speculative concept and systems, and there is no speculative thinking whose concepts do not reveal, on closer investigation the empirical material from which they stem.
سائنس کی تاریخ اور فلسفہ اساتذہ پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ تصوراتی ساخت کو تیار کرنے کا طریقہ کار کیا ہے، دھیرے دھیرے ان میں سے کچھ اہم اقدام، انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت اور سمجھ میں اضافہ کرتا ہے، یہ کچھ اہم اقدار نکالتا ہے جو سائنسی شکوک وشبھات سے جڑا ہوتا ہے۔
اکیلے ساتھ ساتھ مضمون پر ان کے علم کو مضبوط بناتے ہوئے اور ان مہارتوں کو بھی جو ان سے جڑی ہوتی ہوں یہ اساتذہ کو اور ان کے ذریعہ طلبہ کو اس مرکزی سوال تک لائے گا کہ علم کیا ہے؟ علم کی تشریح اور تعلیم کا مقصد کیا ہے، یہ انہیں سائنس کی سماجیات اس کے اقدار اور اخلاق کا ایک اور نظریہ دیتا ہے۔
ہندوستانی دستور میں یہ تمام ’’سائنسی غصہ‘‘Scientific Temper کے طور پر بدنام ہے۔ اب تک ہم اس پر بہت بات کرچکے کہ ٹیچرس کو کیسے پڑھانا چاہیے اور کیا پڑھانا چاہیے، یہ وقت ہے کہ اب علم ، تعلیم کے ماہرین ، نصاب تیار کرنے والے، منتظمین اور سیاست بنانے والوں کے لیے وہ عملی طور پر بتائیں کہ وہ اساتذہ کو کیا سکھانا چاہتے ہیں
کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، اصل اور مرکزی مسئلہ’’ نصاب نہیں بلکہ تعلیم کا مقصد ہے۔
مترجم: ذیشان سارا
بشکریہ لرننگ کروسائنس اشو12،عظیم پریمجی فائونڈیشن، بنگلورو
(Learning Curve Issue 12, April 2009)