تجسس، زبان اور سیکھنا

تجسس ایک فطری صلاحیت ہے اور تمام جانوروں میں پائی جاتی ہے جبکہ انسانوں میں اس کا اظہار سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ انسانوں میں جاننے یا معلوم کرنےکی خواہش اس فطرت کو جنم دیتی ہے اور بالآخر اپنے پیچھے ایک چیز چھوڑ جاتی ہے (یعنی علم)۔ اس طرح کا علم یا تو حتمی ہوسکتا ہے (یعنی جس کا واضح جواب معلوم ہو) یاپھر وہ انسان کو سیکھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ یعنی ایک شخص اپنے تجسس کے باوجود ضروری نہیں کہ ہمیشہ اطمینان بخش جواب تک پہنچ پائے اور یہی چیز انسان کے سیکھنے کا عمل بنتاہے۔ سائنسی ایجادات اور دریافتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے تجسس کے ثمرات، بعض اوقات انسانیت کے لئے فائدہ بخش نتائج کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں۔ نتائج سے قطع نظر، جاننایا معلو م کرناذہن کا ایک ایسا عمل ہے جس کا مقصد تجسس کی خواہش کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ لہذا، تجسس، ایک فطری انسانی سرگرمی ہونے کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پرایک ایسا عمل ہے جس کی نشونما انسانیت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے۔ اور ساتھ ہی اس لئے بھی کہ اس سے حاصل ہونے والے ضمنی فوائد کو حاصل کیا جاسکے۔

ایک نوزائیدہ بچہ اس دنیا میں جس وقت آتا ہے تب وہ اپنے اطراف کی چیزوں، لوگوں اور واقعات اور اس طرح کے کسی بھی علم اور تفہیم سے عاری ہوتا ہے۔ لیکن یہ تجسس کے تحفہ کے ساتھ دنیا میں آتاہے اور تجسس کی اس صلاحیت کا استعمال سیکھنےکے ذریعہ کے طور پر کرتا ہے۔ اس طرح اس دلچسپ خواہش کو پورا کرنے میں، بچہ سیکھناشروع کردیتاہے۔ تاہم، جوں جوں بچہ پروان چڑھتاہے، اس کے تجسس کے بنیادی ذوق کی نشونما اس کے نگہبانوں، والدین، خاندان کے بزرگ افراد وغیرہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ جو اس  بچے کو اس کے تجسس کو پورا کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ابتدائی وسائل فراہم کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر زبان کے ابتدائی رموز سے بچہ کو واقف کرواتے ہیں اور اس ذریعے بچے کو اظہار خیال کرنے، اسے گفتگو میں شریک کروانے اور اسے سننے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ جب ایک بچہ بڑھنے لگتا ہے اور اس کے اعصابی خلیوں کو زیادہ سے زیادہ الفاظ اور جملوں سے آگاہی ہوتی ہے تب اس کا فطری تجسس مزید زور پکڑ تاہے اور چاہتا ہے کہ مزید سیکھے، ٹھیک ویسے ہی جب ایک بچے کے دانت نکلتے ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ہر اس چیز کو چکھے اور کھائے جہاں پر اس کا ہاتھ پہنچتا ہو۔

یہ بحث اٹھائی جاسکتی ہے کہ زبان بنیادی طور پر ایک سہارا نہیں بلکہ بچے کے اظہار کی پہلی منزل ہے۔ جب تک کہ زبان و لسانی اظہار کے ذریعہ بچہ اپنی خواہشات اور اپنے جذبات کے اظہار سے واقف نہیں ہوپاتا، تب تک وہ بے ساختہ رونا، کرب، آہ و بکا، گنگناہٹ، چیخنا جیسے افعال سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔یہ اس کے سرپرست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بچے کی ضروریات، خواہشات اور احساسات کو سمجھے۔ لہذا، لسانی قیدوں سے پرے، بچے خود کو بہت سے مختلف طریقوں کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں، جن کا وہ اچھی طرح استعمال بھی کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان احساسات کو حرف اور الفاظ کی شکل دینا سیکھ جائیں، اس وقت ان کے احساسات و تاثرات بدل جاتے ہیں اور زبان کے ذریعے ان کو رسمی شکل دے دی جاتی ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ باضابطہ طور پرتسلیم شدہ لسانی اورقواعد پر مبنی زبان کے بناء نہ تو تجسس کی نشونما ممکن ہے اور نہ ہی علم کی توسیع۔ البتہ یہ زبان محدود ہوسکتی ہے۔

پھر بھی تجسس ایک دور دراز کی خصوصیت ہے، کیونکہ ایک دفعہ جب کچھ معلومہوجاتا ہے تو تجسس کی خواہش نسبتا کم ہوجاتی ہے، جب تک کہ بقایا علم خود ہی دماغ کو مزید جاننے کے لئےاکسا نہ پائے۔ لہذا، تجسس کے فروغ میں نہ صرف جوابات فراہم کرنا شامل ہے بلکہ بیک وقت تجسس کے مزید بیج بونا بھی ضروری ہے جو مزید سوالات کا باعث بنیں۔ تجسس کی قیمتی لیکن کم ہوتی ہوئی فطرت کے پیش نظر، معاشرے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں میں تجسس کو پروان چڑھانے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے سیکھنے کی سہولیات فراہم کرے اوراس کی حوصلہ افزائی کرے۔

اگرچہ افسوس کی بات یہ ہے کہ مروجہ تعلیمی نظام میں جہاں ہمارے بچے سیکھتے ہیں وہاں ہمارے فطری تجسس کا نہ تو خیر مقدم کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی پرورش کی جاتی ہے۔تعلیم کی یہ دائروی منطق غیر متعلقہ چیزیں جمع کرنے کا باعث بنی اور اس نے تعلیمی عمل کو انحطاط کا شکار بنادیا۔ یہاں اصل ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جیسے فطری طور پر متجسس نوع کے لئے، ہمارا نصاب نوجوان دماغوں کو ایسے مواد سے بھر دیتا ہے جو ہمیں ہمارے اندر چھپی ہوئی متجسس شخصیت سے جداکردیتا ہے، اور اسکولوں میں پڑھائے جانے والے اسباقمحض روزگار کے حصول کے لئے افراد کو تیار کرتے ہیں۔ پھر بھی اکثر سیکھنے کا عملاور اس کے نتیجے میں علمنہ تو جاننے کے لئے ہمارے تجسس کو جنم دیتے ہیں اور نہ ہی ہماری زندگی کے معمولات پر ان کا اطلاق ہوتا ہے۔ (مثال کے طور پر ایک پڑھا لکھا فرد اپنی روز مرہ کی زندگی میں کتنی کثرت سے لازم و ملزوم کے تصورات کو استعمال کرتا ہے؟)۔ یہ عصری تعلیم ہے: جوہمارے دماغ کو غیر متعلقہ مواد سے بھرنے اور پھر اس موادکو امتحانات میں لگ بھگ ضبط تحریر لانے میں اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے اور یہ پورا عمل معاشرتی طور پر منظور شدہ اور ایک ترتیب کے تحت قائم ہے، اور اس پورے عمل کے لئے ہمیں انعامات دیے جاتے ہیں، سند تقسیم کی جاتی ہے اور ہمارے اسکولوں کی درجہ بندی ہوتی ہے۔

ہمیں چاہئے کہ اس طرح کی منطق کو ترک کردیں (”سیکھنا برائے سیکھنا”) اور سوال کریں کہ حقائق، تعریف، اصولوں، فقرے، نظریات اور محاورات ان سب کو جمع کرنے تک ہی تعلیم کا رخ کیوں مرکوز رکھنا چاہئے؟اور یہ سب کچھ تعلیم کے نام پر ہورہا ہے۔ آج کل کے اس قسم کے بے لچک تعلیمی نظام کے منفی اثرات بچوں میں تعلیم سے یکسر عدم دلچسپی، اور اس کے نتیجے میں معاشرے کے غیرمتعلق وسائل کو اکھٹا کرنے اور مجموعی تعلیمی اسکیم سے عدم اطمینان کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔

تعلیمی عمل کی توجہ کا مرکز سوال کرنے اور معلومات کے ذریعہ سیکھنے کا عملہوناچاہئے۔ اسی طرح ہم اپنے اندر چھپی متجسس شخصیت کو جاننے اور سیکھنے کے عمل میں لگا سکتے ہیں۔ سوالات پوچھنے کے ہمارے فطری رجحان کو زبان کے ذریعہ ہی استعمال کیا جانا چاہئے: بچوں کو سوالات کرنے اور اس کے نتیجے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے زبان کی تعلیم پر زوربہترین ذریعہ ہے۔ اس طرح، زبان نہ صرف بڑے پیمانے پر معاشرے میں اپنے تاثرات کو پہنچانے کے لئے ایک اہم وسیلہ کا کام کرتی ہے بلکہ اسی کے ساتھ اپنے اندر موجود اپنی شخصیت کو پہچاننے کا باعث بھی بنتی ہے۔

تجسس نے بلی کو مار ڈالاایک برہمی خطبہ ہے جسے ہم اکثر سنتے ہیں لیکن وجہ نہیں بتائی جاتی۔ اگلی بار ہمیں تجسس کرنا چاہئے اور پوچھنا چاہئے، کیسے؟


مصنف کے بارے میں: ‘نٹراجن رام چندرن، ڈیلویئر کے، ولیمنگٹن میں کام کرتے ہیں،جو دنیا کے ہر معاملے میں اکثر اپنی رائے رکھتے ہیں۔ ان کی دلچسپی ارتقائی سائنس، سیاسی فلسفے، سیکھنے کے عمل اور پرامن دنیا کے حصول کے لئے الحاد کی وکالت کے میدانوں میں ہے۔ اپنے فارغ وقت میں، وہ کارٹون شو، دی سمپسنکے ہومر سمپسنکے کردار سے خود کومتعارف کرواتے ہیں۔ ان سے [email protected]پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مترجم:  سمین رضوی

بشکریہ:  لرننگ کرو، عظیم پریم جی یونیورسٹی

Author: Admin

1 thought on “تجسس، زبان اور سیکھنا

Kafeel کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے