مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب – ہلال کے ساحل انکل کو الوداع


بچپن میں ایسے بہت سارے کہانی نویسوں، کارٹونسٹس، نظمیں لکھنے والے ادیب اور اصلاحی مضامین نگاروں سے خوب استفادہ کیا جو بچوں کے لیے لکھتے تھے لیکن کبھی ان کی تصویریں نہیں دیکھیں۔ وہ، جن کے نگارشات کو پڑھنے کے لیے گاؤں کے ڈاکیے کی سائیکل کی گھنٹی کا انتظار ہوتا تھا، کبھی ان سے حقیقی زندگی میں ملنے کا موقع نہیں ملا۔

اس احساس نے کبھی دل سے رخصت نہیں لیا اور پچھلے ہفتہ ایک عزیز نے مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی بیماری کی خبر شیئر کی؛ ساتھ میں انکی تصویر بھی تھی!!

برملا زبان سے یہ بات نکلی کہ یا خدا، ان کی تصویر پہلی بار دیکھی بھی تو اس پریشان کن خبر کے ساتھ!!
دو تین دنوں کے بعد مرتضیٰ انکل کے انتقال پُر مَلال کی خبر نے ایک شدید نقصان کا احساس کرا دیا۔

یادش بخیر، یہ 1997-1996 کی بات ہے جب مَیں رانچی میں اپنے نانہال میں رہ کر ملت اکیڈمی میں پڑھائی کر رہا تھا۔ والد صاحب ملنے آئے ہوئے تھے ،انہوں نے مجھے ایک پیارے سے کور ڈیزائن والا رسالہ دیا، یہ بھی کہا کہ تاج بک ڈپو میں یہ ہر ماہ دستیاب ہوگی، منگوا لیا کرو۔ وہ رسالہ مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی سربراہی میں نکلنے والا ماہنامہ ہلال تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے پہلی بارقرآن حکیم کی سورہ اخلاص کا بچوں کے لیے لکھا ترجمہ اسی شمارے میں پڑھا تھا۔


گھر میں اور بھی رسالے آتے تھے، کبھی کبھار اردو اکادمی سے شائع ہونے والا ماہنامہ امنگ بھی پڑھنے کو ملتا تھا لیکن اصلی محبت تو ہلال سے ہو گئی تھی۔

ہلال میں خطوط کے کالم میں سارے بچے ردی کی ٹوکری سے گھبراتے تھے، خط پہنچ جایا کرتے تھے لیکن ادارتی ٹیم( جن میں وسیم انکل، آشی اپیا اب تک یاد ہیں، اللہ ان پر اپنا فضل و کرم فرمائے) کی ردی کی ٹوکری خوش نصیب بچوں کو ہی بخشا کرتی تھی۔ غالباً ایک دو بار یہ خوش نصیبی مجھے بھی ملی تھی۔

ہلال کا سب سے زیادہ انٹر ایکٹو کالم خطوط والا کالم ہی تو تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سارے ہلالی بچوں کو ادارتی ٹیم نے ایک بڑے سے کمرے میں بٹھا رکھا ہو اور خوب باتیں ہوں اور عاشی اپیا اور نسیم انکل ہر ایک کو برابر کا پیار دے رہے ہوں۔

مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی نظموں کی تعریف کرتے ہوئے بچے اپنے خطوط میں انہیں ساحل انکل پکارتے تھے۔ اور کریں بھی کیوں نہ، ایک ہلالی فیملی جو بنا رکھی تھی رامپور کے اس گھرانے نے۔

کچھ بڑا ہوا تو والد صاحب نے ماہنامہ نور کی خریداری جاری کروا دی۔ اُس میں ریڈیو نورستان کا کالم پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے واقعتاً یہ پروگرام ریڈیو میں نشر ہو رہا ہو۔


ان کالم نگاروں کی تخلیقی صلاحیتوں کو سلام۔

نور میں بھی مرتضیٰ ساحل تسلیمی کے ہلکے پھلکے انداز میں لکھے اصلاحی مضامین، اور بڑی پیاری نظمیں پڑھنے کو ملتی رہیں۔
امّی ماہنامہ بتول پڑھا کرتی تھیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے مَیں اور امّی نے کئی دفعہ ایک ساتھ مرتضیٰ ساحل تسلیمی کے کالمز پڑھے۔

مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب ہر مہینے ایک خاندان کے تمام عمر کے لوگوں کے لیے لکھ رہے ہوتے تھے۔ ایک چھوٹا بچہ بالکل آسان فہم زبان میں ہلال کے ذریعے ان سے نصیحتیں حاصل کر رہا ہوتا تھا، تو اس کا بڑا بھائی نور میں اُن سے کسب ِفیض حاصل کر رہا ہوتا تھا اور ان بچوں کی ماں بتول میں ساحل صاحب کی تحریریں پڑھ کر پرورش کے گُن اور اپنی شخصیت کو نکھارنے والے حکمت کے موتی بٹور رہی ہوتی تھیں۔ اوربلا مبالغہ ایک پورے گھر کو ادارہ الحسنات سے شائع ہونے والے ان قیمتی رسالوں کے پہنچنے کا انتظار ہوتا تھا۔

ان رسالوں اور ساحل صاحب وغیرہم کی کوششوں کا ہی ثمرہ ہے کہ جدید دور کے اس طوفان بدتمیزی میں بھی مسلم نوجوان ،دین ، ادب ،اخلاق اور زبان سے مالامال نظر آئیں گے معدودے چندہی سہی۔ وہ بچے جو ساحل صاحب کو انکل کہا کرتے تھے آج یا تو 20 کے آخری سالوں میں ہوں گے یا 30 کی عمر کے ہوں گے۔ اُن کو بچپن میں بفضلِ تعالیٰ ہلال اور اس جیسے رسالے دستیاب تھے ۔ وہیں موجودہ دور کی نسل جس نے جدید دور کی آب و تاب میں اپنی آنکھیں کھولی ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کی نہ صرف شاہد بلکہ اس کی صارف بھی بنی ہوئی ہے، اس نعمت غیر مترقبہ سے محروم ہے جو ہلال اور نور کے بچوں کو مل گئی تھی۔

آج ملک بھر سے بچوں کے لئے رسالے نکلتے ہیں۔ پرنٹ فارمیٹ میں یوں تو بہیترے رسالے موجود ہیں، لیکن موجودہ نسل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ڈیجیٹل فارمیٹ میں بھی مفیداورقابل رساء رسالوں کو شائع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پرنٹ ہو یا ڈیجیٹل ،ہردوقسم کے بچوں کے رسالہ جات میں پھر وہی روح کی ضرورت ہے جو مرتضیٰ ساحل صاحب اور آپ جیسے دیگر ادباء نے اپنے خون جگر سے پھونکی تھی۔

خدا سے دعا ہے کہ مرتضیٰ ساحل تسلیمی کو غریق رحمت کرے اور ہمیں ان کے کام کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

مصنفین:  فرحان سنبل اور عبد المومن

Author: Farhan Sumbul

تعلیمی اور پیشہ ورانہ لیاقت کے اعتبار سے سافٹ ویئر انجینئر ہیں. اردو زبان میں درس و تدریس کے مشاغل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

1 thought on “مرتضیٰ ساحل تسلیمی صاحب – ہلال کے ساحل انکل کو الوداع

  1. ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ❤️
    ساحل انکل نے ہمارے ذہنوں پر انمٹ نقش چھوڑے ہیں۔الله تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین
    آپ کے قلم کے لیے نیک خواہشات جناب۔

سلمیٰ نسرین آکولہ کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے