ریاضی کی نوعیت اور اسکولی تعلیم سے اسکا رشتہ – حصہ دوم

سوچ کو ریاضیاتی رخ دینے کا عمل نہ ہی وقتی ہےاور نہ ہی مطلق۔بلک کیا بچے کیا بڑے ہر کوئی اسکول اور اسکول کے باہر ریاضی کو استعمال میں لاتے ہیں ۔وہیں دوسری طرف ہمارے نصاب میں کئی ایسی چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جنہیں طلباء مناسب طریقے کے ذریعے نہیں سیکھتے ہیں،جسکی وجہ سے وہ حقیقی معنوں میں ریاضی نہیں سیکھ پاتے۔مندرجہ ذیل کچھ مثالیں ہیں جو اگر مناسب طریقے سے نہیں سیکھی گئیں تو خدشہ ہیکہ بچے انہیں رَٹ لگا کر سیکھ لیں :

سے ضرب دے سکتے ہیںn/m کو تقسیم کرنے کیلئے آپ m/n”

“HCF کا a اور b تقسیم )a ضرب bمساوی ہے( LCMکا b اورa

تمام مثلث جن کے عرض اور اونچائی ایک جیسے ہونگے ، اُن سب کا رقبہ بھی ایک جیسا ہوگا”


اس  مضمون کا حصہ اول یہاں پڑھیں


خلاصے (مفروضوں)کا مسئلہ:

چھوٹے بچے اس دنیا کا اِدراک حقیقی چیزوں کے ذریعے کرتے ہیں ، ریاضی کوبھی وہ اِسی طرح سمجھتے ہیں۔اس حقیقت کے باوجودریاضی کے نصاب میں (حتٰی کہ پہلی کلاس میں بھی) خلاصہ (فرض)کرنے کا تصور پایا جاتا ہے۔

سب سے نچلی کلاسوں میں استعمال ہونے والی اِس لائن پر غور فرمائیں:

دو اور دو جمع ہونے پر چار بنتے ہیں

کہا جاتا ہے۔سائیکل کے پہیے، پائیتابوں کا جوڑا اور دو سیب آپس میں ایک قدرِ مشترک Abstraction اِس بیان میں دو اور چار کا استعمال ہوا ہے جو حقیقی نہیں بلکہ حقیقی چیزوں کا خلاصہ (مفروضہ)ہے جِسے انگریزی میں

رکھتے ہیں: جو دراصل دوئی کو خصوصیتہے جو اِن تینوں مثالوں میں دکھائی دیتی ہے۔ دو سیب اور دیگر دو سیب جمع ہوکر چار سیب بنتے ہیںایسا بیان ہے جو حقیقی زندگی سے قربت رکھتا ہے اور سمجھ میں آسکتا ہے بجائے اِس کے کہ اوپر والی مثالیں لی جائیں ۔

میں لکھی گئی اپنی کتاب بچے اور اعدادمیں بچوں کے ساتھ کئے گئے مکالموں کو شامل کیا ہے جو اس بات کو محکم طور پر پیش کرتے ہیں کہ بچے حیران کن طور پر اسکول جانے سے پہلے ہی اعداد کی 1986مارٹن ہیوس نے

اینٹوں کو صحیح گِن بھی سکتا ہے اور یہ بھی پیش قیاسی کرسکتا ہے کہ 8خاصی سمجھ رکھتے ہیںلیکن یہ سمجھ کلاس روم اور نصاب میں استعمال کی جانے والی ریاضیاتی زبان کے انداز میں نہیں ہوتی ۔ ایک بچہ باکس میں موجود آٹھ

اینٹوں کو مِلانے پر دَس اینٹ بنتے ہیں! حالانکہ ایسا عین ممکن ہے کہ وہی بچہ خلاصے(مفروضے) پر مبنی اِ س سوال کو حل نہ کرپائے: “آٹھ اور دو جمع کرنے پر کیا ہوگا؟” 2باکس میں اور دو

اِس قسم کے دیگر تجربے بھی کئے گئے ہیں جو سب لگ بھگ ایک جیسے نتیجے پر پہونچتے ہیں۔اِس بحث اور اِن تجربوں کی مَرہون ِمِنّت کلاس روم میں مخصوص خلاصے پر مبنی زبان استعمال کرنے سے پہلے حقیقی چیزوں کے ذریعے

بچوں کے ذہنوں میں اِن تصورات کے بیج بونے چاہئے تاکہ جب مفروضوں پر مبنی بیان اور خلاصے پر مبنی زبان استعمال ہو تو بچے فوری حقیقی چیزوں کے عکس میں اُن تصورات کو جانچ، سوچ اور سمجھ سکیں۔آگے بڑھ کر اِس طرح کےغیر رسمی تجربوں و مشقوں سے رسمی مشقوں و تجربوں تک کے سفر کو کلاس روم میں واضح کریں۔

ریاضی کے عِلم کی تشکیل و تعمیر:

ریاضی کے بنیادی اجزاء چونکہ خلاصہ جاتی(فرضی) ہوتے ہیں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ محض ہمارے دماغ کی اُپج ہیں یا ہماری ذہنی استعداد سے پَرے کوئی چیز ہیں۔یہ ایسا مسئلہ ہے جو ریاضی کے فلاسفر حضرات ریاضی کے )کے دور سے بحث کررہے ہیں۔کیا اعداد حقیقت میں موجود ہیں یا صرف ہمارے ذہن میں ایک تصور؟اِ س بحث کے اطراف کئی آرائیں برٹنارڈ رسّل کی چھوٹی سی کتاب 1596 – 1650فلسفی رینے ڈیکارٹے(

میں جمع کردی گئی ہیں۔ ہم اِس بحث سے قطع نظر ایک ایسے پہلو پر بات کریں گے جو کلاس روم کیلئے بہت مفید ہے۔”Introduction to Mathematical Philosophy

پِیاگٹ، ویوٹسکی، اور دیگر حکماء کے کام نے اِس حقیقت کو اَب تسلیم کروایا ہیکہ بچے غیر فعال اور سستی میں کوئی چیز نہیں سیکھتے بلکہ ہر سیکھنے والا خود سے فعال طور پر اپنے عِلم کی آبیاری کرتا ہے۔عِلم کی یہ تشکیل و تعمیر دراصل باہر کی دُنیا سے اور لوگوں سے ربط کی بناء پر ممکن ہوپاتی ہے۔لہٰذا ریاضی کے بنیادی اجزاء حقیقت میں موجود ہوں یا نہ ہوں، ریاضی کے عِلم کی تشکیل و تعمیر ہر سیکھنے والے کو خود کرنی ہوگی۔

پِیاگٹ کا کام اسکولی ریاضی پر نہیں بلکہ بچے کی ابتدائی زندگی میں ریاضی سیکھنے سے متعلق تھا۔کانسٹانس کامئی نے یہ دلیل پیش کی کہ بچے حساب(جمع، تقسیم، ضرب، تفریق وغیرہم) دریافت نہیں بلکہ حساب کی تجدید کرتے رہتے ہیں۔یہ نکتہ پہلے کے بیان کہ بچے اسکولی تعلیم سے پہلے ریاضی یا اعداد کی اچھی سمجھ رکھتے ہیںکی نفی کرتا نظر آئیگا لیکن اسکی تفصیل کرنے پر یہ بات صاف ہوجاتی ہیکہ اسکولی تعلیم سے پہلے بچے مختلف قسم کے ریاضی مسئلوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں ۔

کیا ریاضی کا علم اپنے آپ میں ایک منفردمقام رکھتا ہے؟:

مندرجہ بالا نکتوں کا کلاس روم میں اطلاق کرنے سے پہلے ہمیں یہ طئے کرنا ہوگا کہ ریاضی کے کس پہلو کو سکھلا یا جائے؟۔ کیا ہمارےنصاب کا انتخاب صِرف علمِ ریاضی کی بنیادی نوعیت پر ہو ؟ اور اگر ایسا ہی ہو تو کیا ریاضی کی ساخت منفرد اور کائناتی ہے؟ یہ سوال کسی پیشہ وارانہ ریاضی دان کو پوچھا جائے تو اثبات میں جواب ملے گا۔لیکن جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہیکہ ریاضی دانوں اور ریاضی کی کمیونٹی کے ممبران خود سے سیکھتے ہیں جو کہ ایک مخصوص اور چھوٹا گروپ ہے اور اسکولی تعلیمی اِس قسم کے اشرافیہ گراپ کو ذہن میں رکھ کر نہیں دی جاسکتی ہے۔

ہندوستان کے بشمول کئی ممالک میں ہوئے تحقیق کا لُبِّ لباب یہ ہیکہ دُنیا ،میں علمِ ریاضی کی کئی الگ الگ روایات موجود ہیں۔اُن میں سے کچھ قبائلی اور دیگر عام دُنیا سے الگ تھلگ سماج میں موجود ہیں، وہیں گلّی کی ریاضیکے نام سے موسوم کچھ ریاضیاتی روایات ، اسکولوں میں مروجہ ریاضی عِلم کے شانہ بہ شانہ بھی چلتی ہیں۔میستری ، پلمبر، اور دیگر کاریگر حضرات اپنے کام سے مخصوص ، منفرد قسم کی ریاضی کو استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔

اِسی بات کو گہرائی کے ساتھ کہا جائے تویہ ہوگی کہ کسی دئے گئے وقت اور مقام میں ریاضی داں حضرات کا ریاضیاتی عمل (ریاضی مشقیں، تجربے و طریقے)اُس علاقے کے دیگر سماجی گروپس کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔رنگ و نسل، زبان و قومیت اور مذہب کچھ ایسے عوامل ہیں وہ بھی ریاضیاتی عمل میں اہم رول ادا کرتے ہیں درآنحالانکہ ریاضی دان یہ دعویٰ بھی کرلے کہ وہ اِن شناختوں سے پَرے وجود رکھتا ہے۔یہ دعویٰ کہ ریاضی یوسلِڈ سے لیکر نیوٹن تک اور تب سے لیکر اب تک یک رخی نہج پر مغربی دنیا سے ہی ترقی پاتی آرہی ہےکئی پہلوؤں سے چیلنج کیا جارہاہے۔

ریاضی کی تدریس :

ابھی تک بیان کئے گئے تصورات کلاس روم میں ریاضی کو پڑھانے سے متعلق اچھی روشنی ڈالتے ہیں جن کو یہاں خلاصے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے:

1۔ طلباء کو ریاضی سکھلاتے وقت پسِ منظر اور سیاق و سباق کی اچھی وافقیت دینی چاہئےجو حقیقت پر مبنی ہوہاں یہ ہوسکتا ہےکہ وہ حقیقتمیں موجود نہ ہو۔

2۔ ابتدائی کلاسوں میں بچوں کو کئی ایسی حقیقی چیزوں کا استعمال کرنے کیلئے مہیا کرنا چاہئے جو انہیں سیکھنے میں معاون ثابت ہونگی۔

3۔غیر رسمی ریاضی مثالوں سے رسمی مثالوں کے سفر کی باضابطہ نشاندہی کرنی چاہئے۔ابتداء میں الگورتھمس کو نہیں پڑھانا چاہئے۔

4۔ریاضی کی بنیادی مہارتوں کو سیکھنا اہم ہے لیکن ریاضیاتی سوچ اُس سے زیادہ اہم ہے۔

5۔طلباء کو یہ مغالطہ میں نہ رکھا جائے کہ عِلم ِریاضی کو مکمل سیکھ کر پسِ پُشت ڈال دیاجاسکتا ہے۔

6۔الغرض، ایک اُستاد پر لازم ہیکہ وہ ہر طالبِ علم کی فعال تدریس میں اہم رول ادا کرے۔

آخری الفاظ:

ایسا محسوس ہوسکتا ہیکہ ریاضی کی بنیادی ساخت و نوعیت کی بحث ، فلسفیانہ نہج پر ہے اور ابتدائی کلاسوں میں پڑھانے سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے ، لیکن اِس مضمون کی بحث سے ہم اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ ریاضی کی بنیادی نوعیت، اسکے بنیادی اجزاء دراصل ابتدائی کلاسوںمیں ریاضی تعلیم سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں۔لہٰذا اُن تمام افراد جو ریاضی کی تعلیم سے تعلق رکھتے ہیںاساتذہ، اسکولوں کے صدور، اساتذہ کے مربی وغیرہ پر لازم ہیکہ وہ اِس مضمون میں بیان کئے گئے نکتوں اور تجربوں پر سوچیں اور عمل کی کوشش کریں۔


تحریر: امیتھابھامکھرجی، پروفیسر یونیورسٹی آف دہلی

ترجمہ: عبد المومن

بشکریہ– لرننگ کرو ، عظیم پریم جی یونیورسیٹی ،   بنگلور 

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے