ہندوستانی سماج میں زبان پر طائرانہ نظر

اختلاف اور اتحاد سے عبارت تکثیری ہندوستانی سماج، کئی تہذیبوں و مذاہب، طرزہائے زندگی،لباس و غذاکے طور طریقے،اور دیگر بھانت بھانت قسم کے رسوم و رواج کا مرکب ہے جو اس ملک کی پیچیدہ شناخت کے عوامل ہیں ۔ مختلف مذاہب جیسے ہندومت،بدھ مت،جین مت،سکھ ازم، اسلام،اور نصرانیت وغیرہ اپنے مختلف فرقوں کے ساتھ رنگ برنگے قبائلی مذہبی عقائدگویا ایک ہی پھول کی پنکھڑیاں ہیں۔ ٹھیک اسی قسم کا تنوع (اختلاف) ہندوستانی زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ زیریں مضمون اسی ہندوستانی لسانی منظر نامے کو پیش کرتا ہے اور حال ہی میں کی گئی چند تحقیقات کے نتائج کو بھی سامنے لاتا ہے۔

ہندوستان کے لسانی خاندان

تمام ہندوستانی زبانیں چھ (6)لسانی خاندانوں سے نکلی ہیں۔

 انڈو۔آرین(انڈو۔یورپین) (ہندی۔آرین⁄یورپین)75.30%۔(ہندی، مراٹھی، گجراتی، سندھی، پنجابی، کشمیری، اوریہ، آسامی ، بنگالی وغیرہ

دراویڈین۔%22.59 (تامل، تیلگو، کنڑا ،ملیالم اور کچھ قبائلی زبانیں) ۔(Dravidian)

 آسٹرو۔ایشیٹک%1.13(خصوصًا قبائلی زبانیں)۔

تبتو۔برمن%0.97 (خصوصًا قبائلی زبانیں)۔

جرم (ہندی۔یورپین)۔%0.02(انگریزی)۔

سیمیٹو- ہیمیٹک۔%0.01(عربی)۔

یہاں بے شمار زبانیں اور بولیاں ہیں جو مخصوص سماجی جماعتوں میں اپنی الگ الگ شناخت رکھتی ہیں۔ مثلً ہر علاقائی زبان کی مختلف مقامی بولیاں ہوتی ہیں جن میں سے ایک کو معیاری زبان کا رتبہ ملتا ہے۔

ہندوستان میں زبانیں اور بولیاں

ہندوستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں ہر بیس میل پر زبان بدلتی ہے۔اس کی وجہ شاید یہ حقیقت ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ شاذ و نادر ہی اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کرتے تھے یا انہیں دوسرے لوگوں سے میل جول کے کم ہی مواقع ملتے تھے۔ اسی لئے ان کی زبان اور تہذیب کی لا ثانی حیثیت بر قرار رہی۔انگریزوں سے قبل ہندوستان میں آنے سے پہلے پانچ سو سے زیادہ چھوٹی بڑی حکومتیں اور گاؤںتھے۔ لیکن اب ہندوستان کا جغرافی -سماجی منظر نامہ بدل چکا ہے ،لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ملک زبانوں کے باہمی انضمام کی گویا ایک لیباریٹری بن گیا ہے۔

ہندوستان کا سیای -سماجی طیف

ہندوستان کا سیای،معاشی اورسماجی -تہذیبی پس منظر کامل طور پر کثیر ساختہ ماحول کے اندر پنپتا ہے۔یہاں کی معیشت میں زراعت کومرکزیت حاصل ہے جس میں قدیم سامراجی نظام، ماقبل سرمایہ دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام معًا موجود ہیں۔ اس کا جمہوری سیاسی نظام ، دراصل مقامی پنچایت کے نظام اور بین الاقوامی نظام سیات کا مرکب ہے ۔ اس کی سماجی تہذیبی بناوٹ چھوٹی چھوٹی تہذیبوں کی ایک عظیم تہذیب ہے۔ اس کی صنعت و حرفت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیکر چھوٹے پیمانے پر ہونے والی صنعتوں سے بنے طیف پرمبنی ہے ۔ اس کا قانونی نظام جہاں ایک طرف مقامی پنچایتی نظام سے لیکر روایتی قبائلی قوانین پر مبنی ہے وہیں ضلعی وہائی کورٹوں کے جال کے ساتھ سپریم کورٹ کی شکل میں رواں دواں ہے ۔ یہاں کے لوگ ذاتی و معاشی درجہ بندی میں بندھی اجتماعیت میں رہتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں تہذیبوںکا اشتراک حقوق اور جماعتوں کی مخصوص شناختوں کے لئے جہاں سُمِّ قاتل بنتا ہے وہیں تہذیبوں کے مابین تغیر ات میں زبان اور قوت پر مبنی بحث بحث اور پیچیدہ ہوجاتی ہے۔

زبان درحقیقت ایک سماجی مظہر ہے جس کو عام طور پر معاشی قوت،مذہب،قومیت،ذات،سیاسی نظریوں ،اور مقامی و قومی حد بندیوں کے تئیں سمجھا جاتا ہے۔ ان شعبوں کے ساتھ ساتھ زبان جذباتیت پر مبنی مظہر واقعہ ہے ۔ ذہن میں کسی خاص مقصد کو رکھ کر زبان کا استعمال کئے جانے پر مخصوص جغرافیائی علاقوں میں مختلف فیہ سماجی اجتماعیتوں میں یا تو ہم آہنگی یا تقسیم کا باعث بھی بن سکتی ہے یا دیگر الفاظ میں زبان سماج میں موجود مختلف چھوٹی اکائیوں کے ایک بڑی اکائی میں انضمام میں اہم رول ادا کرسکتی ہے وعلیٰ ہذٰا القیاس ان اجتماعی سماجی اکائیوں میں اختلاف کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف اوقات میں ہونے والی زبان پر مبنی تحریکیں اور ابھی جاری ہندی بحیثیت قومی زبان کی بحث اور انگریزی زبان کا رول بضمن ِتعلیمی میدان ،انتظامیہ اور مجموعی عوامی رابطہ میں والی مثالیں اس خصوص میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ کسی بھی کثیر اللسانی اور کشیر التہذیب ماحول میں جہاں اکثریت و اقلیت ،اور چھوٹی سماجی جماعتوں کا سنگم ہوتا ہے،وہاں جماعتوں کی انفرادی پہچان اور قومی انضمام کی بحالی واضح طور پر متضاد چیزیں ہیں۔

کثیراللسانی ہندوستان میں زبان کا استعمال ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔مختلف زبانوں کی رسہ کشی کے ما بین معاشرے کا قدرتی کھنچاؤ سماجی و معاشی نقل و حرکت کی ارتقا کے لئے انگریزی زبان کی طرف زیادہ ہے ۔جس طرح انگریزی زبان بدلتے منظر نامے کی مناسبت سے دیگر زبانوں کے خواص اپناتی رہتی ہے اسی طرح ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی استعار لینے کا سلسلہ جاری ہے ۔ گھریلو معاملات ، تعلیم،انتظامیہ اور رابطہ عامہ دراصل اس کثیر ساختہ اخلاقیا ت کا انعکاس کرتے ہیں جو ملک کی سماجی پیچیدگیوں اور متنوع تہذیب سے عبارت ہیں ۔

ہندوستان میں انگریزی کا رتبہ

ہندوستان کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ نائب سرکاری زبان انگریزی ہے۔ آزادی کے موقع پر دستور ًا اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ انگریزی زبان پندرہ سال کے عرصے تک اس کی نائب سرکاری زبان ہوگی۔اس بات کی امید تھی کہ ہر صوبہ ہندی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت سے قبول کرلےگا۔ لیکن ایسا کبھی بھی نہ ہوا۔ تاریخی حیثیت سے ہندی اور انگریزی کا یہ رتبہ برقرار ہے۔ وقتاََ فوقتاََ یہ مسئلہ پارلیمنٹ کے دونوں سبھاؤں میں چھڑتے رہتا ہے۔

ہندوستان کے سیاسی منظرنامے میں یوں تو انگریزی زبان کو بیرونی زبان کا تصور حاصل ہے لیکن یہ وہ زبان ہے جس میں معاشی ترقی کے بہیترے مواقعات کی وجہ سے ہر کوئی اس میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روز مرہ کے استعمال میں انگریزی زبان کی مختلف شکلیں ہیں ، جیسے ہنگلش(ہندی زبان سے متاثر) ، بنگلش(بنگالی زبان سے متاثر) ،کنگلش(کنڑا زبان سے متاثر) مالنگلش( ملیالم زبان سے متاثر)وغیرہ ۔ یہ سلسلہ کثیراللسانی تصورزبان و تہذیب کے قبیل جاری و ساری ہے ۔ بالفاظ دیگر ہندوستان میں انگریزی زبان کومادری زبان کی روشنی میں از سر نو تشریح کی جاتی ہے۔

ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مستعمل شدہ دیگر زبانیں

ہندوستان کے ایک کثیر اللسانی اور کثیر التہذیب ملک ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے مختلف صوبائی علاقے بھی سے اسی طرز کے تنوع و افتراق سے مالا مال ہیں۔ سال 1956میں نظم و نسق میں آسانی کی خاطر ہندوستان کومختلف علاقوں میں کثرت سے استعمال شدہ زبانوں کی بنیاد پر مختلف صوبوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ آنے والے سالوں میں زبان کی بنیاد پر نئے صوبے بھی بنائے گئے ؛ابھی بھی کئی اضافی صوبوں کے بہت سارے مطالبے مرکزی حکومت کے ہاں زیر تجویز ہیں۔

ہندوستان کے تقریباََ تمام دارالسلطنت اور میٹرو پولیٹن شہر کثیراللسانی واقع ہوئے ہیں۔ اکثیرتی، اقلیتی اور قبائلی زبانیں بولنے والے لوگ معاشی ترقی کی تلاش میں ان شہروں کی طرف ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ ان سب کا تعلق معاشرے میں موجود ہر سطح کے سماجی، تعلیمی اور معاشی طبقات سے ہے۔ مثلًا اکثر ایسے طبقات جن کی اپنی مخصوص زبان ہوتی ہے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی وجہ سے عروس البلاد ممبئی کی طرف ہجرت کرتے ہیں جو کہ ہندوستان کا تجارت کا مرکز ہے۔ یہ دیہاتی غریب اورنا خواندہ جو رہنے کیلئے زیادہ کرائے ادا نہیں کر سکتے ،ایشیا ء ک سب سے بڑے جھوپڑ پٹی کے علاقے (سلم)”دھاراوی “میں رہ بستے ہیں۔ ہر لسانی جماعت اس سلم کے مخصوص علاقے میں ڈیرا جماتی ہے۔اور زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگتی ہے جہاں وہ اپنی آبائی زبان کو برقرار بھی رکھتے ہیں ، اپنے تہذیبی اقدار کو اپناتے ہوئے پڑوس اور بقیہ ممبئی (جو ہندی میں چلتا ہے )کے ساتھ شانہ بہ شانہ جینے بھی لگتے ہیں۔

بہت سارے بڑے شہروں میں زبان کی نسبت سے اسو سی ایشنس موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر دہلی میں تامل سنگم، کنڑا سنگھا، اور بنگلا سنگھا وغیرہ ہیں۔ یہ وہ اسوسی ایشنس ہیں جہاں ایک مخصوص زبان میں بات کرنے والوں کی اکثریت ہوتی ہے جہاں پر وہ اپنے مذہبی اور تہذیبی روایات کی پاسداری و عملدرآمد کرتے ہیں۔

ہمارے ملک ہندوستان میں ایک تجارتی برادری ہے جس کا کام بنیادی طور پر پیسے قرض دینا ہے۔ انہیں مارواڑی کہا جاتا ہے۔ ان کی گھریلو (مادری) زبان مارواڑی ہے جس کی وہ بڑے فخر کے ساتھ حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے حساب کتاب کی دستاویز ات ایک خاص رسم الخط میں ہوتے ہیں جسے ‘لاندے ‘ کہا جاتاہے جس کا مطلب صرف وہی جانتے ہیں۔ بہر حال وہ اپنے گاہکوں سے گفتگو کرنے کے لئے مقامی زبانوں میں بھی فصاحت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

اگر کوئی ہندوستان کے جنوب کے کنارے سے شمال کی آخری حد تک یا کسی اور جانب سفر کرے تو گفتگو و عوامی رابطہ میں رکاوٹ نہیں پیش آتی ۔ مقامی زبان ،غذا ، لباس اور رہن سہن کے اعتبار سے حالانکہ کافی اختلاف ہے لیکن مؤثر گفتگو میں بہر حال کوئی بنیادی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ گفتگو میں رکاوٹ اسی وقت آتی ہے جب کوئی انتہائی دور دراز علاقے کو پہونچ جا تاہے۔ کسی شخص کے انداز بیان (بات کرنے کے انداز) کی بنیاد پر یہ کہنا آسان ہوجاتا ہیکہ اس کا تعلق کس علاقے سے ہے۔

چھوٹے سے گاؤں میں بھی ذات پات کے امتیاز کی وجہ سے زبانوں کے استعمال میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بہت سارے گاؤں ایسے بھی ہیں جن میں بجز اسکے کہ کئی مذاہب کے ماننے والے رہ رہے ہوں گے لیکن تمام افراد ایک ہی زبان بول سکتے /بولتےہیں۔ مثال کے طور پر کیرلا اور تامل ناڈو میں مسلمان تقریبًا ہر گھر میں تامل اور ملیالم ہی استعمال کرتے ہیں اور اردو اور عربی صرف مسجد میں استعمال کرتے ہیں۔

خلاصہ

تقریری اور غیر تقریر ی غرض ہر دو زبانیں روبرو گفتگو کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ لوگ ،دوسرے سماجی طبقات کے بارے میں جغرافیائی قربت اور سفرناموں کے ذریعے جانتے ہیں ۔ اس طرح ادبی تہذیبں جنم لیتی ہیں جن کی مرہون منت ایسی زبانوں کو فروغ حاصل ہوا جو حکمرانی اور تعلیم عامہ میں استعمال ہونے لگیں۔

سماجی مقبولیت ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے اکثر کثرت سے مستعمل زبانیں مزید ترقی کرتی ہیں۔ انہیں انتظامیہ ، تعلیم اور رابطہ عامہ (ماس کمیونیکیشن )میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مخصوص عمل نے عدم مساوات اور تفریق کو جنم دیا۔ ادب کے میدان میں دیکھا گیا ہے کہ ، بڑی زبانوں کے نزاع کے چلتے ،کم بولی جانے والی اور اقلیتی زبانوں کی اہمیت کم سے کمتر ہوتی جاتی ہے۔ اس حالت میں مزید زور اس حقیقت سے بھی ہوا جومعاشرے میں سماجی و معاشی نقل و حرکت برائے ترقی کے لئے ہوتی ہے ۔معاشی بڑھوتری کی خاطر والدین اپنے بچوں کو مخصوص زبانوں میں اسکولی تعلیم دلواتے ہیں۔بہتر و خوشحال زندگی گزارنے کی خاطر زیادہ پیسہ کمانے کی کوششوں میں ان زبانوں کی حالت دگرگوں ہوتی گئی جن کی تحریری روایات یا تو کمزور (کم) تھیں یا اس سطح تک نہیں پہونچیں تھیں کہ زمانے کے ساتھ ساتھ سماجی ومعاشی ترقی میں شانہ بہ شانہ چل سکیں۔ متذکرہ بالا بیان دراصل سماجی مقبولیت کے ذریعے زبانوں کے اختیار و ترقیاتی سفر کی توضیح ہے جسے سیاسی قوت کے ذریعے اُپج ملتی ہے ،تعلیمی نظام کے ذریعے تقویت ملتی ہے اور جس کو دیگر حلقہ جاتِ اثر جیسے انتظامیہ اور (ماس کمیونیکیشن )رابطہ عامہ میں منتقل کیا جاتاہے ۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھتے گیا ذرائع رابطہ جیسے ٹیلگراف ، ٹیلیفون اور ریڈیو وغیرہ کی شکل میں ترقی ہوتی رہی ۔ ٹیلیگراف، ریڈیو اور سیٹلائیٹ جیسے ذرائع نے اُن زبانوں کو با اختیار اور ترقی دی جن کو استعمال کر ان ذرائع کو برتا جاسکتا تھا اور انہیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی اور ان ذرائع میں استعمال بھی کیا جاتارہاہے۔ الغرض (گلوبلائیزیشن )عالمیانے کے اس دور میں زبان کی خود مختاری کی توضیح بتوسط ٹیکنالوجی اور سماجی مقبولیت سےکچھ ان خطوط پر کی جاسکتی ہے جس کی کوشش اس مضمون میں ہم نے کیا ہے۔

مصنفہ کے بارے میں

“جینیفر بایر “شہر میسور میں واقع “ہندوستانی زبانوں کے مرکزی ادارے “سے وظیفہ یاب ہیں اور وہ اب غیر مراعات یافتہ لوگوں کے لئے سماجی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔وہ باپو جی چلڈرنس ہوم،باپو جی آنند آشرم اور ہری مُراری چاریٹیبل ٹرست کی متولی بھی ہیں ۔ ان سے [email protected]پررابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Author: Syed Mazhar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے