زبان کی اہمیت

ابتدائی تعلیم میں زبان کی بنیادی اہمیت اور بچے کی اس پر مہارت عموما تسلیم شدہ ہے۔ اس عمومی قبولیت کی وجہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ زبان بچوں کے لئے اور ہر کسی کے لئے ایک دوسرے سے رابطہ کا جزو لا ینفک ہے۔ کیا لسانی علم علم ریاضی ، سائنس یا کسی  اور مضمون کے فہم کے لئے لازم ہے؟ بلا شبہ بچے تعلیم کے تمام مضامین زبان ہی کے ذریعہ سمجھتے ہیں۔ بے شک بچے زبان کے ساتھ اور زبان کے ذریعے ہی  سوچتے ہیں، فیصلے کرتے ہیں اور اقدام کرتے ہیں۔ سماج کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے بچے کے وجود میں زبان مرکزی کردار ادا کرتی ہے (جیسے کسی اور  کے معاملے میں)۔

بچے کی تعلیم اور ترقی کے لئے زبان کی مرکزیت کو قبول کرنے کیلئے مذکورہ بالا نقطہ نظر کا واضح ہونا نہ صرف ضروری  بلکہ لازم ہے۔ بہر حال یہ ایک محدود نقطہ نظر ہے۔ اس نقطہ نظر کی محدودیت زبان کو ایک آلہ کی حیثیت سے دیکھنے میں ہے، علم ریاضی کو سمجھنے یا فیصلہ لینے کا آلہ۔ بلا شبہ  زبان ایک آلہ ہو سکتی ہے لیکن یہ اسکے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ یہ” بہت کچھ“ ہی شاید بچوں کی تعلیم اور انکی تمام تر زندگی میں زبان کی مرکزیت کو قطعیت بخشتا ہے۔

ہم انسان اپنےاطراف کی دنیا کو نہ صرف دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں بلکہ انہیں  معنی  بھی دیتے ہیں۔  لہذا جب میں برسات کے موسم میں  کالے بادلوں کو دیکھتا ہوں تو مجھ پر صرف انکی بناوٹ کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ایک پیچیدہ اور مضبوط اثر کالےبادلوں اور بارش، رقص کرتے مور اور بھیگے کپڑوں کی بیچینی کے درمیان تعلق بنانے سے ہوتا ہے۔ اگر میں یہ تعلق نہ بناوُں تو کالے بادل میرے لئے کوئی معنی نہی رکھتے، وہ مجھ پر کچھ اثر نہیں کرتے بلکہ محض یہ ایک بناوٹ رہ جاتی ہے  جس کا مجھے ادراک ہوا۔

یہی وہ “تعلق پیدہ کرنیوالا عمل ہے جو دنیا کی ہر چیز کو معنی دیتا ہے۔  یہ معنی ہی کی آمیزش ہے جو چیزوں کی حیثیت کو بدل دیتی ہے(خصوصًا ہمارے شعور میں) ” صرف ہونے “سے ”معنی خیز ہونے“ کی طرف۔

چیزوں کو معنی ہم اپنے تصورات سے فراہم کرتے ہیں۔ ان تصورات کو ترقی دینے کیلئے ہم اپنے ذہن میں کچھ نشانیاں بناتے ہیں اوران تصورات اور نشانیوں کے درمیان تعلق بناتے ہیں۔ ان نشانیوں پر ذہنی سرگرمی اس تعمیر کا عمل ہے۔

اس ذہنی سرگرمی کی بنیاد زبان ہے اور یہ در حقیقت اس پورے تعمیراتی عمل کا غیر منقسم اور لازمی جز ہے جو انسان کے تصور کی تعمیر کو فروغ دیتا ہے۔

تصور کا نام رکھے بغیر یہ پورا عمل نا ممکن ہے۔ یہ نام زبان میں الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تصورکی تعمیر اور ترقی ہی دراصل شعور اور سمجھ کی ترقی اور حصول ہے۔ زبان اور شعور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ایک کا وجود دوسرے کے بغیر ناممکن ہے۔

 زبان محض ایک آلہ ہی نہیں ہے ۔ یہ شعور کا ایک لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔ یہ انسانی ذہن اور خود شعوری  کی لیاقت ہے ۔ انسانی ذہن شعور کی مجموعیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ شعور کی ترقی کے ساتھ ترقی کرتی ہے  اور جب شعور پر روک لگائی جاتی ہے تو زبان بھی رک جاتی ہے۔ یہ خلاصہ ابتدائی تعلیم کیلئے نہایت اہم ہے۔

زبان اور شعور کی ترقی کے کچھ مرحلوں کے بعد یہ ممکن ہے کہ دونوں کی بنیاد اس حد تک مکمل ہوچکی ہو کہ شعور زبان کی ہمروی کے بغیر ترقی کی راہ پر گامزن ہو یا بالعکس۔ لیکن یہ تقسیم بلا شبہ ابتدائی تعلیم کی سطح پر نا ممکن ہے۔ ابتدائی تعلیمی سطح پر زبان اور شعور کی ترقی بچوں کے ذہنی ارتقاء کے دو لازمی اور ناگزیر پہلو ہیں ۔

آئیے زبان کے کچھ پہلووں پر نظر ڈالتے ہیں۔ بول چال کی زبان کی بنیادی اکائی لفظ ہے۔ لفظ آوازوں کا مجموعہ ہے۔ اگر اس آوازوں کےمجموعہ کو تصور سے مربوط نہ کیا جائے  تو یہ محض ایک بے معنی آوازوں کا مجموعہ رہ جاتا ہے اور لفظ نہیں بنتا۔ ایک مخصوص آوازوں  کے مجموعہ (لفظ) کو کسی مخصوص تصور سے مربوط کرنے کے کوئی منطقی اصول و ضوابط نہیں ہیں۔ یہ ربط بے قاعدہ ہے۔ یہ یقینی بےقاعدہ ربط کسی مخصوص زبان استعمال کرنے  والے میں مستحکم اور عالمگیر ہے ۔ ”درخت“  چند آوازوں کا مجموعہ ہے  جو ایک مخصوص تصور سے مربوط ہے، اور یہ رشتہ مستحکم ہے۔ اگر چہ کہ  یہ کچھ دوسرے آوازوں کے مجموعے کی طرح نہیں ہے  جو کچھ دیر بعد تصور سے رشتہ جوڑنا شروع کردے ۔  مثلًا کل کچھ اور آوازوں کا مجموعہ،” کرکٹ“ آج کے ”درخت“  کے تصور سے رابطہ نہیں بناتا حالانکہ درخت کا  تصور سے تعلق ویسے ہی بے قاعدہ ہے جیسے کے کرکٹ کا۔

بامعنی زبان کو بنانے کے لئے الفاظ کچھ قواعد و ضوابط کے ساتھ (یا ذریعے) مستعمل ہوتے ہیں۔ مثلًا الفاظ کا تسلسل ایک مناسب معنی بنانے کے لئے کچھ  اصولوں کی  پابندی کرتا ہے۔ یہ اصول بھی بے قاعدہ ہوتے ہیں لیکن مستحکم اور عالمگیر ہوتے ہیں۔ لہذا زبان قواعد و ضوابط کے تحت قولی نشانیوں کا ایک نظام ہے جس سے انسان معنی اور مطالب بناتا ہے۔ یہ نظام بہت ہی منظم ہے اور سراسر انسان کا بنایا ہوا ہے۔ حالانکہ کسی بھی زبان میں آوازوں کے مجموعوں کی تعداد محدود ہے، معنی اور مطالب کی تعمیر کے لئے ز بانی نظام کی قابلیت لامحدود ہے۔

زبان سیکھنا دراصل اس نظام کی مہارت حاصل کرنا اور اسے معنی کی تشکیل، مطالب کے حصول اور معنی کے اظہار کیلئے استعمال کرنا ہے۔

بول چال کی زبان قولی علامتوں سے بنتی ہے۔ اور تحریری زبان بصری علامتوں سے یا کسی سطح پر نشانیاں لگا کر بنتی ہے۔ یہ نشانیاں حروف ہوتے ہیں۔ حروف کی شکلیں (یا ان کے مجموعے)  آواز وں کی نمائندگی کرتے ہیں۔  ان نشانیوں کا آوازوں سے رشتہ بھی بے قاعدہ ہے لیکن مستحکم اور عالمگیر ہے۔ ہم ہمیشہ (ذہنی طور پر) لکھی ہوئی زبان کا بیانی زبان میں ”ترجمہ“ کرتے ہیں اور پھر اس سے معنی اخذ کرتے ہیں۔ لہذا بیانی زبان کے تقابل میں تحریری زبان کے ذریعہ معنی تک پہنچنے کے مراحل زیادہ ہیں۔

بیانی زبان کےعمل میں ”غیر زبانی  گفتگو“کی  گنجائش اور موقعہ ہوتا ہے (مثلاً  کسی کے چہرے پر آنے والے آثار اور ہاتھ کے اشارے وغیرہ) اور فورًا صفائی کی گنجائش بھی موجود رہتی ہے۔ یہ عمومًا تحریری زبان میں ممکن نہیں ہے۔ لہذا تحریری زبان کچھ اضافی علامتوں کا استعما ل بھی کرتی ہے اور ایک سخت ضابطہ کی پابندی بھی کرتی ہے۔

اس مختصر مضمون کا مقصد لسانیاتی تجزیہ نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے مسائل پر گفتگوکرنا ہے جن کا بالواسطہ  تعلق ابتدائی سطح میں  تعلیم و تعلم  سے ہے  ۔ چند نتائج جو ہم نے اس مضمون سے اخذ کئے ہیں درج ذیل ہیں۔

    1۔ بچوں کیلئے شعور اور زبان کی ترقی ایکدوسرے پر منحصر ہے۔

     2۔ تصور اور آوازوں کے مجموعے (لفظ)  کا رشتہ   بے قاعدہ ہے اور اس کی کوئی منطقی دلیل نہیں ہے۔  لیکن یہ رشتہ عالمگیر اور مستحکم ہے۔

     3۔ الفاظ کو جملے بنانے اور معنی کی تشکیل میں استعمالکرنے کے قواعد و ضوابط بھی بیقاعدہ ہیں لیکن یہ بھی مستحکم اور عالمگیر ہیں۔

     4۔ لہذا زبان ایک منظم  علاماتی نظام ہے۔

     5۔ معنی کی تعمیر کے لئے لسانی نظام کی قابلیت لامحدود ہے ۔

     6۔ تحریری زبان میں حروف آوازوں کے مجموعوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان سے تعلق بھی بناتے ہیں۔

     7۔ بیانی زبان کے تقابل تحریری زبان کے ذریعہ معنی تک پہنچنے میں زیادہ مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔

ابتدائی سطح میں تعلیم و تعلم کے سلسلے میں اخذ کردہ درج بالا نتائج کے مضمرات میں سے دو کی طرف فوری اشارئے پیش ہیں۔ جو بیقاعدہ ہے وہ بچہ سے تنہا قائم نہیں ہو سکتا۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ دوسری زبان بولنے والوں کا مشاہدہ کیا جائے، ان لوگوں سے مدد لی جائے جو ان بیقاعدہ رشتوں کو بنانے میں مہارت رکھتے ہوں اور لازماً مشق کی جائےپھر کہیں جا کر یہ مشق تصوراتی سمجھ پر سبقت لیتی ہے۔ قواعد و ضوابط میں بندھے نظام پر اسی وقت مہارت حاصل کی جا سکتی ہے جب بچہ کی تصوراتی مشغولیت اور ذہنی سمجھ مشق پر سبقت لےجائے۔ زبان سیکھنے کیلئے دونوں  کی ضرورت ہوتی ہے حالانکہ مجموعی طور پر سیکھنے کے عمل میں تصوراتی سمجھ اور معنی سازی اہم کردار نبھاتے ہیں لیکن مشق کو ہم رعایت نہیں دے سکتے، خصوصا تحریری مہارت کے حصول میں۔

اس چھوٹے مضمون میں کچھ متنازع دعوے بھی کئے گئے ہیں؛ ان بارے میں وضاحت پیش ہے۔ اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ الفاظ بیترتیب انداز میں آوازوں کا مجموعہ ہیں۔ اس پر کافی لسانی تحقیق ہو چکی ہے کہ الفاظ کی تشکیل کیلئے آوازوں کو چند طے شدہ عالمگیر ضوابط کے مطابق جمع کیا جاتا ہے۔ لیکن ان اصولوں کی پابندی کے باوجود  الفاظ کی غیرمعمولی اکثریت آوازوں کے جمع کرنے میں  بے قاعدگی کو برقرار رکھتی ہے اورتصور کو ان آوازوں سے جوڑنے میں حتمی طور پر۔  دوسرا دعوی لفظ کو زبان کی معنی خیز اکائی بنانے کا ہے۔ یہ غلب خیال ہے کہ زبان کی کعنی خیز اکائی جملہ ہے۔ یہ صحیح ہے کہ معلومات کے اظہار، درخواست اور سوال وغیرہ کیلئے اکائی جملہ ہے لیکن ذہن میں خیال کی جنبش پیدہ کرنے کیلئے ایک لفظ ہی کافی ہے۔ اور خیال کی جنبش لازما معنی خیز ہوتی ہے۔

تیسرا دعوی جملوں میں الفاظ کی ترتیب کی آمریت کا ہے۔ لسانیاتی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ تمام انسانی زبانوں میں جملوں میں الفاظ کی ترتیب عالمگیرضوابط پر ہوتی ہے۔ اس بات کا دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ بچے اس ترتیب میں کبھی غلطی نہیں کرتے  اور یہ ضوابط انسانی ذہن میں فطری طور پرنقش ہیں۔ چونکہ ایک سے زیادہ ساخت پر جملوں کو لکھا جا سکتا اور بچے غلطی کرتے ہیں اسلئے ان ضوابط کو سیکھنے کیلئے تجربہ کی ضرورت ہے۔ جی ہاں، بہت سارے عالمگیر ضوابط ہیں، لیکن یہ ایک متنازع نکتہ ہے کہ وہ فطری طور پر مخصوص لسانی ضوابط ہیں یا انسان کے شعوری آہنگ کا اظہار ہیں۔ لہذا یہاں آمریت محدود ہے۔

کئی جگہوں پر آوازوں کے مجموعہ اور معنی وغیرہ کو لسانی دائرہ میں مستحکم اور عالمگیر قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ضاص عرصہ اور سمجھ کیلئے محدود ہیں۔ زبانیں اہنے انداز اور الفاظ کے معنی بدلتی ہیں وقت اور استعمال کرنیوالوں کے درمیان۔ لیکن جب تک یہ عام فہم ہوتے ہیں ان کا مقبول عام ہونا اور مستحکم ہونے کا کردار جاری رہتا ہے۔

اختمام میں: انسان بننے کیلئے زبان کا مقام مرکزی ہے۔ یہاں اس پہلو کو تفصیلًا نہیں بیان کیا گیا ہے۔ ایک وجہ  جگہ کی قلت  ہے اور دوسری وجہ در اصل یہاں ان نکتوں کی نشاندہی کرنا مقصود ہے فوری طور پر کلاس روم میں زبان کی تعلیم کیلئے استعمال ہو سکتے ہیں۔


روہت دھنکار دگانتار شکشا اِوام کھیل کود سمیتی کے سکریٹری ہیں۔ علم ریاضی  اور فلسفے کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ایک چھوٹا سا اسکول شروع کیا ۔ اس اسکول اور تعلیمی فلسفے نے  انہیں جذباتی ثابت کیا۔ اس بات نے انہیں انسانی زندگی میں تعلیم کی مزید جگہ تلاش  کرنے کی طرف  اور ایک بہترین اسکول کی تدبیر کی جانب  رہنمائی کی   جس کی طرف ان کی توجہ مرکوز رہی۔ اس وقت سے وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش میں ہیں کہ آزاد اور خود کفیل تعلیم کو کیسے حاصل کیا جا تا ہے، اور اس کے لئے کیا سماجی وسعتیں موجود ہیں یا انہیں کیسے ہموار کیا جا سکتا ہے۔ ان سےرابطہ کیلئے ای میل۔

[email protected]

Author: Syed Mazhar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے