ریاضی کی تدریس – حصہ اول

نفس ِمضمون شروع کرنے سے پہلےلفظ “تدریس” سے متعلق کچھ مسائل کی وضاحت ضروری ہے۔اکثر اس لفظ کو عِلم و تعلیم کے متعلق کئی چیزوں کی طرف اشارہ کرنےکیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اِس حقیقت کے بعد بھی کہ یہ لفظ کثیر الجہت مستعمل ہے اس سے متعلق کچھ اہم پہلوؤں کو مزید اجاگر کرنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔

کسی بھی استاد کوسب سے پہلےجس ڈِسپلن (علمی میدان)کو سیکھا یا سکھایا جارہا ہو اُس کی اچھی جانچ وپَرداخت ہونی چاہئے۔اُس ڈسپلن کے مشمولات اور اُسکی ساخت کا عِلم حاصل کرلینا چاہئے۔لہٰذا ہم جب “ریاضی کی تدریس “کی بات کرتے ہیں تو سب سے بنیادی سوالات جوحل کئے جانے چاہئے جو مندرجہ ذیل ہیں:

ریاضی کیا چیز ہے؟ اُس کے اندر کیا کیا چیزیں آتی ہیں؟  ریاضی کیسے کام کرتی ہے؟  اِن سوالات کااحاطہ کرنے کے بعد ہی ہمیں آگے کا رُخ کرنا چاہئے۔

“ریاضی کے اندر کیا چیزیں آتی ہیں” کا جواب یہ ہوگا کہ اُ س کے اندر”حِساب” اور اُس کے عمومی اجزاء(جنرلائیزیشن)  یعنی الجبرا، جیومٹری، شماریات، اعدادی نظام کا تجزیہ اور دیگر چیزیں شامل ہوتی ہیں۔اس کو دیگر الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ مقدار، شکل اوراُن کی ہئیت میں تبدیلی سے متعلق اِنسانی تجربات کا خلاصہ کرنا، انہیں ایک نظم سے باندھنا اور عمومی طور پر سمجھنے کی کوشش کا نام “ریاضی “ہے۔بعد ازاں ترقی کرتے ہوئے ریاضی دیگر تمام ڈسپلنس میں خلاصہ کے حامل یا عمومی “خیالات “کو نشو نما دینے کی زبان کے طور پر بھی استعمال کی جانے لگی ہے۔ریاضی کا عِلم اور اُس کے نظریات اب مقدار، پیمائش اور شکل کے ابتدائی ضروریات کے آگے استعمال ہونے لگیں ہیں۔ریاضی، خیالات اور نظریات کو مختلف میدانوں میں خلاصے کی زبان میں جوڑنے کا کام بھی کرتا ہے۔عِلم ریاضی میں ترقی کے ساتھ ساتھ، اب یہ انسانی تجربات کے مختلف میدانوں میں باہم مشترک چیزوں کی شناخت کرتے ہوئے انہیں مزید تقویت بخش رہا ہے۔

دوسری اہم شرط جس چیز کی ضرورت ہے اس کا ریاضی کی زبان میں ممکنہ اظہار کیا جائے۔جہاں ٹیبلس(اعدادی پہاڑے)سیکھنے کا طریقہ الگ ہوسکتا ہے وہیں “لفظی پہیلیوں” کو بوجھنے یا کسی “تغیر”کو سمجھنے کا طریقہ الگ ہوسکتا ہے۔تدریس ، عِلمی میدان کی کوئی شاخ نہیں ہے،وہ آپ کی عِلمی ضروریات میں فیصلہ سازی کرنے پر مدد نہیں کرسکےگی درآنحالانکہ تدریس کا تعلق اِن ضروریات و خواہشات سے ہے جو عِلمی میدان میں ہم اِنسان کرتےہیں۔جہاں جہاں تدریس اور عِلمی میدان میں یہ تعلق دیکھنے کو ملے گا، انتہائی اہم اورحیران کن نظر آئے گا۔ مثلاََ آپ کسی بچے کو “تعمیراتی طریقے٭”سے پہاڑےنہیں سکھاسکتےاور نہ ہی”کلاسیکل رویہ جاتی فریم ورک٭”میں راست جوابات سے مُبرا  سوالات کی تلاش  ہی کرواسکتے ہیں۔

خیالات اور ضروریات کو کیسے ہم ریاضیاتی شکل دیتے ہیں؟

ریاضی کےہمہ جہت پہلوؤں اور اُسکی “خلاصہ جاتی ساخت ٭”نے “این-سی-ایف٭” کو اس بات  پر آمادہ کیا کہ وہ بچے کی سوچ کو ریاضی کے نہج پر لگوانے کو ریاضی تعلیم کا سب سے اہم جز تسلیم کرے۔اس کا عین مطلب یہ ہے کہ بچے کو “منطق پر مبنی عمومی دلائل ” کا خلاصہ کرنے کے قابل بنایا جائے، اُس کے ذاتی تجربات  کا گہرا  اِدراک کروایا جائے، اورہر چھوٹے بڑے واقعےوممکنہ واقعات کی دقیق سمجھ پیدا کی جائے۔ الغرض انہیں منطقی نقطہ نظر رکھنے کی جانب راغب کروائیں۔

ابتدائی کلاسوں (جماعتوں) کا ریاضی نصاب ، اعداد کی سمجھ اور اُن کا استعمال سے لیکر خود اَعدادی نظام،   تقابل کی سمجھ اور اُس کی قدر معین کرنا ، اشکال (تصویری خاکوں) اور اشکال کے مکانی تعلق کی سمجھ اور مواد(ڈیٹا) کے استعمال پر مبنی ہو۔ اِن میں کن کن چیزوں پر اور انہیں کیسے پڑھایا جائے، اسکے لئے ریاضی کا مجموعی تصور ٹھیک کیا جانا چاہئے۔تبھی ہم کلاس روم میں کیا اور کیسے کا فیصلہ کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ابتدائی کلاسوں کیلئے ریاضی کے کئی ایک مضامین میں سے کچھ مخصوص کو چننے کی وجوہات پر ہم اپنے آپ کو مطمئن کرلیں تو پڑھانے کا کام آسان ہوجاتا ہے۔

مشقوں کو حل کرنے کی صلاحیت کی جانچ مختلف طریقوں سے کی جاسکتی ہے۔ایک طریقہ یہ ہیکہ بچےکو حل یا جواب نقل کرنے کو کہا جائے۔ماباقی سوال جو بچے کو دئے جائیں گے وہ جوں کے توں ہونگے اور بچے بآسانی انہیں حل کرپائیں گے۔سوالات کو حل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ بچہ سوال میں ہی جواب کے اشارات پاسکے،حل کرنےکے ضابطے پر سوچے اور بالآخر مختلف مرحلوں سے گذر کر حل ڈھونڈ نکالے۔اِس پورے معاملے میں ریاضی ،دراصل “الگورتھمس “کو بنانے اور انہیں سمجھنے کا نام ہے۔

اس نکڑ پر ہمیں کچھ اور منطقی سوال کا جواب دینا پڑتا ہےکہ”ہم ریاضی کیوں پڑھاتے ہیں؟”۔اگر کوئی بچے ابسٹراکشن اور منطق نہ سمجھ پاتےہوں تو کیا ہمیں انہیں ان چیزوں کو پڑھانا چاہئے؟ کیا ثقافتی یا جنینیاتی وجوہات کی بناء پر کچھ بچے ان چیزوں کو سمجھ ہی نہیں پاتے؟کیا ریاضی، سائنس، فلسفہ، تاریخ ، میوزک وغیرہ مضامین میں ابسٹراکشن کی صلاحیت ہر کسی میں نہیں ہوتی؟یا محض ریاضی میں ابسٹراکشن کو لیکر کچھ الگ مسئلہ ہے؟ ہم سب کسی گانے کے راگ  سے محضوض ہوتے ہیں لیکن اس کی حقیقتاََ  ہمت افزائی کرنے کیلئے ہمیں  کلاسیکل میوزک کو سمجھنا ہوگا جس کی سمجھ  یقیناََ ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔ کیا اعداد اور شکلوں  کے ساتھ کھیلنے کی صلاحیت  عمومی اصولوں کی تشکیل  کے مترادف ہوتی ہے؟

اس موقعہ پر یہ سوال بے جا نہ ہوگا کہ ابتدائی وسیکنڈری اسکول کا جامع نصاب  کیسا ہونا چاہئے؟ ایسا کیا کیا جائے کہ ہم ہر کسی بچہ سے سیکھنے کی توقع اور خواہش رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ اُن میں سے کچھ اِس نتیجہ پر بھی نہ پہونچیں اور نہ کہلوائے جائیں کہ وہ سیکھنے کی قابل نہیں ہیں!؟ سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا بچوں کیلئے اعداد کاگننا ، اُن پر کچھ حسابی مشقیں کرنا، ڈیسمل نظام اور اعشاریہ اعداد کا علم کافی نہیں ہے؟کیا یہ ضروری ہیکہ ریاضی کو مزید ابسٹراکٹ بنایا جائے  جونتیجہ میں کئی بچوں کیلئے اس مضمون کوسمجھنے میں دشواری پیدا کردیتا ہے؟ یہ حقیقت کہ کئی بچے ریاضی کے خوف کا شکار ہوتے ہیں، اس کی وجہ وہ مواد ہے جو انہیں پڑھایا جاتا ہے یا طریقہ تعلیم ؟ کیا یہ دہشت خود مضمون کی فطرت میں ہی ہے؟ الغرض، ؎کئی ایک باہم متعلق سوالات کو حل کرنا ہوتا ہے جیسے- ‘ریاضی کیا ہے ؟’سے لیکر ‘ابتدائی کلاسوں میں ریاضی  کے کن اجزاء کی پڑھائی کی جاسکتی ہے؟’۔ اور ساتھ ہی یہ بھی غور طلب سوال ہے کہ  ‘کیا ہر کوئی ریاضی کو یکساں طور پر سمجھے؟’ ہمیں باضابطہ طور پر یہ کہہ دنیا چاہئے کہ (1) کسی خاص عمر کے بچوں کیلئے، کسی مخصوص علاقےاور متعلقہ تاریخی وجوہات کی بناء پر ریاضی کی ضرورت کیوں ہے۔ اور (2)اسکول اور اساتذہ کی صورتحال کی روشنی میں کسی مخصوص علاقے کے بچے ریاضی کیسے سیکھ سکتے ہیں۔ پڑھنے پڑھانے کا عمل ان مذکورہ سوالات و نکات کی روشنی میں ہونا چاہئے۔یہاں اس حقیقت کو بھی قبول کیا جانا چاہئے کہ ہمارے مخصوص سماجی و معاشی حالات کی روشنی میں ریاضی کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے کی صلاحیتیں مختلف بچوں میں مختلف ہوتی ہیں  جسکی وجہ سے اوپر بیان کئے گئے سوالات و نکات کا احاطہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

اس بحث کے بعد سوال ‘تدریس کیا ہے؟’ کو سمجھنا اور سمجھانا بذات خود مشکل ہوجاتا ہے۔اس کا احاطہ اور مسائل کو کماحقہ نہیں بیان کیا گیا ہےاورنہ ہی اُن کی وضاحت کو لیکر کوئی اتفاق موجود ہے۔لیکن ایک عام فہم طریقہ ہے جو لفظ تدریس کے استعمال کو ایک سِمت دیتا ہے۔

تدریس کیاہے؟

وسیع معنوں میں کسی مضمون کے پڑھانے اور پڑھنے کے طریقے کو تدریس سے موسوم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا لفظ تدریس کے کئی اجزاء تشکیل پاتے ہیں ۔ اُن میں کلاس روم میں دئے گئے تجربات و مشقیں،  سیکھنے کے مواد کی ہئیت اور اقسام، جانچنے کا نظام، استاد و طالب علم کا رشتہ، طلباء کی مصروفیات  نوعیت،  کلاس روم کی ترتیب وغیرہ شامل ہیں۔اِن سب کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر عوامل جیسے منتخبہ مواد، سیکھنے اور سکھانے کیلئے صلاحیتیں اور تصورات جو پڑھنے کے تدریسی عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔تدریس، ہر قسم کے سیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے بچے کو اپنا ہدف بناتی ہے۔جو نصاب میں انتخاب اور پس منظر میں تنوع کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔اگر آپ کسی کلاس روم میں تدریس کے اظہارپر غور کریں تو یہ عقدہ کھلتا ہے کہ تدریس، اساتذہ کی پڑھانے سے پہلے کی جانے والی  تیاری، انتظامیہ کی جانب سے اُن کے ساتھ معاملت، اسکول کی عمارت، کلاس روم، اساتذہ اور بچوں میں تنوع واختلاف کی وجہ سے رونما ہونے والی اَن کہی  زیر لب سماجی، معاشی اور سیاسی صورتحال بھی تدریسی عمل کے اہم جز بن جاتے ہیں۔اِن کے علاوہ کئی اور نظم و پس ِمنظر  سے متعلق پہلو ہیں جو تدریسی عمل کو گنجلک بنادیتے ہیں۔

یہاں ہم اُن کئی ایک پہلوؤں میں سے کچھ پر روشنی ڈالیں گےجنکااجمالی طور پراوپر ذکر بھی آگیا ہے۔وہ یہ ہیں:

  • ریاضی کو پڑھانے کے مقاصد۔
  • ریاضی کی فطرت و نوعیت اور اُس کے بنیادی اصول۔
  • استاد اور اُس کانقطہ نظر۔
  • بچے ریاضی کیسے سیکھتے ہیں
  • مضمون کو لے کر سماج میں حساسیت کیسی اور کتنی ہے

ان نکات پر پر بحث کے ذریعے ہم مختلف کلاسوں اور عمروں کے بچوں کیلئے مخصوص مقاصد اور توقعات کو متعین کرسکتے ہیں۔یہی دراصل نصاب کہلاتا ہے۔ پہلے دو نکات میں ریاضی کی فطری ساخت، انسانی سماج کیلئے اسکی اہمیت و افادیت اور خود بچوں(جنہیں اُسکی تدریس کروائی جارہی ہے)کیلئے ریاضی کے فوائد بیان کردئے جانے چاہئے۔تدریس کرنے والے(مدرس یا استاد یا ٹیچر)کو سامنے رکھ کر اورسیکھنے والوں کے پسِ منظر (بیک گراؤنڈ)کی روشنی میں مقاصد و توقعات کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ تیسرا نکتہ اُس مخصوص سمجھ بوجھ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ریاضی کو سیکھنے کے طریقے پر بحث کرتا ہے اور جس کا نتیجہ کلاس روم کی شکل میں نکل  کر آتا ہے۔چوتھا نکتہ سماج میں ریاضی کو لیکر مروجہ رجحان کا احاطہ کرتا ہے جوٹیچر، طلباء اور والدین کےریاضی کے تئیں ناقدانہ خیالات اور دیگر  میلانات واحساسات ہیں جو ریاضی کی تدریس پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں۔

ریاضی سکھانے کے چند طریقے:

کسی بھی مضمون کے سیکھنے یا سکھانے کے متعلق بحث سے پہلے اِ س بات کا جاننا ضروری ہیکہ بچے کیسے سیکھتے ہیں۔یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جو ہماری کوششوں کا محور ہو خاص طور پر ایسے رنگ برنگے مضمون میں جہاں مضمون کا ہر پہلو سیکھنے سے عمل کو نیا رخ دیتا ہو۔مضمون کے اُن مختلف پہلوؤں سے ہر بچے کا منفرد تجربہ رہا ہوگا اوراُن میں ہر بچے سے متعلق توقعات بھی الگ الگ ہونگیں۔

کئی سالوں تک سمجھا جاتا تھا کہ مضمون ریاضی دیگر مضامین کی طرح یکے بعد دیگرےخطی سِمت میں سیکھا جاسکتا ہےجس کی رو سے جو کچھ بھی سیکھا جانا ہو اُسے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں  بانٹ کر بچوں کو انہیں یکے بعد دیگرے مشق کرتے ہوئے سیکھنے پر ابھارا جاتا تھا۔”کم سے کم سیکھنے کی سطح” (MLL(Minimum Learning Level اِس نظریے یا طریقے کی اہم مثال تھی جس میں تدریس “اہلیت” پر مبنی تھی۔

نصابی کتابوں میں بھی ہر عنوان میں اہلیت کو جانچنےکیلئے ایک صفحہ یا ایک سیکشن دیا جاتا ہے۔ توقع یہ کی جاتی ہیکہ مضمون کے ہر حصے کے اختتام پر بچہ اُ س میں مکمل اہلیت حاصل کرلیتا ہے اورMLL  کی ڈاکیومنٹ میں خود لفظ “اہلیت ” کا بار بار مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔کہیں اِ س لفظ کو اطلاعات کے اعادے کے طور پر استعمال اَب وہ دوسرے حصے کو سیکھنے  کیلئے تیار رہتا ہے!

کیا گیا تو کہیں دئے گئے طریقے کی پیروی سے جوڑا گیا، کہیں فارمولے کے اطلاق سے گردانا گیا تو کہیں اصولوں اور مسائل کے حل کو”اہلیت”سے تعبیر کیا گیا۔اِس کے نتیجے میں اُس ڈاکیومنٹ سے  اخذ کرنا  کہ اہلیت سے مراد کیا چیز ہے، مشکل ہوجاتا ہے۔وہیں میدان کار میں بھی لفظ “اہلیت ” کو اچھے سے نہیں سمیٹا گیا۔ الغرض ریاضی کے سیکھنے کو اُسی مخصوص فریم ورک میں دیکھا جاتا ہے جس میں اِس مضمون کے حصےبخرے کرکےاصولوں کی وضاحت کی جاتی ہے ، مشقوں کے ذریعے اور رَٹ مار کر سیکھا جاتا ہے۔

ایک اور اہم عنصر جِس پر تدریس منحصر ہوتی ہے وہ ٹیچنگ اور لرننگ (سیکھنے اور سکھانے) کا مواد (نصابی کتاب اور ورک بُک)ہے ۔ اُن میں موجود  موادبچوں سے کیا کرنے کو کہتا ہے، کلاس روم کے انتظام و انصرام کے بارے میں اور جانچنے کے طریقے کے بارے میں کیا کہتا ہے!نصاب میں اُسکے پڑھنے والوں کو سامنے رکھتے ہوئے مواد ہو ۔ اگر بچوںکا مواد ہو تو مناسب موقعوں پر جگہ کا استعمال ہو،  الفاظ کا فونٹ موزوں ہو اور بچوں کے مطابق تصاویر وشکلیں اور مناسب زبان کا استعمال ہونا چاہئے۔

MLL کی دریافت سے پہلے اور بعد کی نصابی کتب میں کوئی خاص فرق نہیں پایا گیا کیونکہ ابھی بھی بچوں کو الگورتھمس کی مشق کرنے اور حساب میں چستی لانے پر زور دیا جاتا ہے!

بچے کی جانب سے مضمون کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت،بچے کی مخصوص زبان کی شمولیت اور ریاضیاتی مسائل کے حل  کے نت  نئے طریقوں کو ڈھونڈنے اور اُن کی تیاری کرنے پر نہ ہی عمومی طور پر ابھارا جاتاہے اور نہ ہی نصاب میں ہی اِس پر کوئی خاص توجہ دی جاتی ہے!

اکثر ایسا ہوتا ہیکہ “دئے گئے حل کی روشنی میں چند اور مسائل حل کریں۔۔۔الخ” والا طریقہ استعمال ہوتا ہے۔سابق میں موجود رواج جس کی رو سے کسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے کئی مشقیں ہوا کرتیں، اب “اہلیت” کے بوجھ تلے صرف ایک ہی مشق و طریقے پر آکر ٹِک گئی ہیں۔ایسے موقع پر ڈیزائن، تصاویر و اشکال اور رنگوں کے استعمال پر مبنی کتابوں کی ضرورت محسوس کی گئی تاآنکہ کم از کم کتاب کچھ مختلف نظر آئے۔درآنحالانکہ ڈیزائن ، تصاویراور دیگر پہلوؤں کی جانکاری دینے کے اصول ابھی بھی بچے کو فعال انداز میں سیکھنے کا سزاوار نہیں بناپاتے۔

“اہلیت”اور “کام کرتے ہوئے سیکھنا” Learning by doing جیسے الفاظ اہلیت کی وضاحت نہ ہونے پر اُسے محض شارٹ کٹس اور حقائق کو بہم پہونچادینے یا سیکھ لینے کا نام دیا گیا۔

کم از کم ریاضی کے سیاق و سباق میں صحیح طور پر مخاطب نہیں کئے گئے۔جمع کرنے کا عمل صِرف  دو 2اعداد کو ملانے پر محمول کرلیا گیا۔ریاضی کو مشق پر مبنی مضمون بنانے کی کوشش میں اعشاریوں  والے اعداد کو کچھ عنوانات اور اعمال کی روشنی میں دیکھا جانے لگا۔

ریاضی اصولوں و خیالات کو اجزاء میں تشکیل دے کر دیکھنے اور پرکھنے کی وجہ سے بچہ کیلئے خود سے خیال(آئیڈیا) اور منطق کی تیاری اور اُس کا اظہار نسبتاََ مشکل ہوگیاہے۔

ریاضی کی مشق چونکہ محض  چند میکانیکی اعمال تک محدود ہوگئی ہے، ایسی مشقیں جو تلاش و دریافت سے شروع ہوکر، دلائل کی تشکیل، اظہار اور وضاحت  کے طریقوں کی تیاری  ناپید ہی ہیں۔یہاں یہ کہنا مقصود نہیں ہیکہ بچوں کو سارے انسانی علوم کی چھان بین خود کرنی ہے اور چیزوں کی دریافت و پرداخت بذات خود سب کرنی ہے ۔ انسانی سماج نے جس علم کا اِدراک ابھی تک کیا ہے اُس کو ہر ایک تک پہونچانا چاہئے لیکن اِس طریقے سے کہ لوگوں کی سوچ میں نُدرت و تازگی ، تجسُس اور سیکھنے کی خواہش برقرار رہے ۔اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہیکہ موجودہ عِلم  کو بعینہِ تھوپ دیا جائے۔

مضمون نگار –   ہردئے کانت دیوان

بشکریہ- لرننگ کرو ، عظیم پریم جی یونیورسیٹی ،   بنگلور 

اس مضمون کا دوسرا حصہ یہاں پڑھیں

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے