ابتدائی سطح پر تعلیم کا فہم

“الفاظ کی ترتیب و نحو دیکھ کر مجھے اسکول میں استاد کے سکھائے گئے اسباق یاد آتے ہیں مگر میں کتاب  سے زیادہ سیکھتا ہوں”۔  ایل۔سی۔ٹیلر۔

پرائمری سطح کے اساتذہ بھلے ہی اپنے مضمون میں ماہر نہ ہوں لیکن دوامورمیں ان کا مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان کے لئے ‘سیکھنا’ سے کیا مراد ہےاور ‘بچہ’ کیا ہوتا ہے  یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ میں آج آپکو وہ باتیں بتاوئنگی جو ان دو عناوین سے متعلق میں نے سمجھی ہیں۔ تاکہ ہم اس سوال کو کہ کلاس میں “سیکھنے” کو کیسے شامل کریں، پر غور کیا جا سکے(بشمول زبان کے)۔

تاریخ میں بسا اوقات بچے کو چھوٹا جوان اور خام نوجوان سے تصور کیا جاتا رہا ہے ۔اسکے برعکس بچے کاایک رومانی تصور ‘آدمی کا باپ’ کا بھی ہے۔ ایک آزاد قوت  جو دنیا سے فی البدیہہ طور پر نبرد آزما اور غیر مشروط ردعمل کا معاملہ کرتی ہے ، ذہن کی وہ منزل کہ جسکی تمنا خود “پکاسو” جیسے اعلیٰ فنکار کو بھی تھی۔

اگر اسکول کے ماحول کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ پہلے تصور کے ما تحت بچے وہی سیکھتے ہیں جتنا بڑوں کو معلوم ہے۔ جو کچھ بڑوں کو علم ہوتا ہے وہ چھوٹوں میں بہت زیادہ تعداد میں اور بہت جلد  منتقل ہو جاتا ہے۔ سیکھنے کا مطلب وہ سیکھنا ہے جو بڑے جانتے ہیں۔

دوسرے تصور کے مطابق ، جسے   جِین پیاگیٹ اور ماریہ مونٹیسری وغیرہ نے پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ بچہ اپنا ایک ذاتی شعورو   سمجھ رکھتا ہے  اور یہ بھی کہ آزادانہ طور پر ارتقاکرتا ہے۔ سیکھنے کا مطلب بچے کی ذہنی سرگرمی ہے، جو بچے کے سوچنے کےانداز میں تبدیلی لاتی ہے ۔ ہم کیا سمجھانا چاہتے ہیں اسے معلوم کرنے کے لئے چلئے کچھ حقیقی واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

ایک ابتدائی اسکول کی انگریزی پڑھانے والی  ٹیچر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر کہتی ہے کہ ‘میرے دو ہاتھ ہیں اور دس انگلیاں’ ۔ اس کا ادعا یہ ہوتا ہے کہ بچے اس  کے بعد  یہ دہرائیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولےایک بچہ چلا کر کہتا ہے’ میرے  بھی ہیں’ ۔اس بچے کو سزا دی جاتی ہے ۔  اس بچے سے ٹیچر  پریشان کیوں ہے؟ کیا ہم بچے کے جواب کو سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ کچھ سیکھ رہا ہے؟ کیا وہ درحقیقت پہلے ہی سیکھ گیا جو ٹیچر سکھانا چاہتی ہے ؟ ٹیچر  کیا سکھانے کی کوشش کررہی ہے؟

ایک بچے کوکسی غلطی کی سزا کے طور پراسکول کے بعد اسکول  ہی میں روک لیا گیا ۔  تیسرے یا چوتھے دن اس کی ماں نے  اس سے پوچھا  کہ اس دن واقعی کیا ہوا تھا؟ بچےنے کہا: ‘ ماں! میں  اسٹمک پین (پیٹ درد) کو، لیگ پین(پیر درد) کو  جانتا ہوں لیکن وِنڈو پین  کیاہوتا ہے نہیں جانتا۔ ماں نے اپنے بچے کو اُس اسکول سے  نکال لیا اور ایسا قدم اٹھایا جو اب حیدرآباد کے  مشہورترین اسکولوں میں سے ایک  ہے۔ میں نے یہاں شانتا رامیشور راؤ صاحبہ اور وِدیا رنیا ہائی  اسکول کا حوالہ دیا ہے۔ اتفاق سے اسی سے ملتے جلتے واقعات کا ذکر “میکائیل ہوے” نے اپنی کتا ب

   ‘A teacher’s guide to the psychology of learning’

میں پیش کیا ہے۔

ایک چھوٹا بچہ جب اسکول جاتا ہے تو اس کی ٹیچر کہتی ہے کہ ‘ یہاں پر پریزنٹ (فی الحال)کے لئے بیٹھ جاؤ’۔ بچہ اداس چہرہ کے ساتھ گھر واپس جاتا ہے  کیونکہ اس کی ٹیچر نے اسے  پریزنٹ (تحفہ) نہیں دیا۔

جب ہم سمجھتے  ہیں کہ سیکھنا ایک ذہنی سرگرمی ہے  جسے بچہ اپنےذہن میں  کرتا ہے  بجاےَ اسکے جو ہم بچے کوبا قاعدہ لکھنے یا بولنے پر ابھارتے ہیں  اس وقت  ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ٹیچر اور بچے کے ما بین  سمجھنے کے کچھ خاص مسائل ہو سکتے ہیں جس پر غور کرنا ٹیچر کی ذمہ  داری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بچے  ہمیشہ سیکھنے کی  کوشش کر رہے ہوں۔ لہذا ممکن  (window pain اور present) ہیکہ بچے  اس چیزکو نہ سیکھیں جو آپ  

کے ذریعے سکھلانا چاہتے ہیں۔ دھیان رہے کہ تمام بچے ایک ہی وقت میں ایک ہی چیز یکساں طور پر نہیں سیکھتے ۔

  یہ آخری نکتہ ابتدائی اسکول کے متعلق حقیقت کا غماز ہےاور خصوصًا زبان جیسے مضامین کے سلسلہ میں  جن کے بارے میں بچے کے اندر کچھ شرائط کے ساتھ  ‘ارتقاء’ کا تصور  مناسب  ہے برخلاف ‘سکھانے’ کے مثلًا جو طبیعیات اور الجبرا جیسے مضامین میں ہوتا ہے۔ جیسے ہم سمجھتے ہیں کہ تمام بچے جسمانی طور پر جوانی کی طرف بڑھتے ہیں ویسے ہی بچوں میں ذہنی ارتقاء بھی ہوتا ہے ۔ جیسے کہ جسمانی ترقی کو نشو نمااور پرورش دی جاتی ہےاور جسے بیرونی ذرائع سے زبردستی نہیں پروان چڑھائی جاتی (مثلا بچے کو لمبا کرنے کے لئے کھینچا نہیں جاتا) اسی طرح ذہنی ارتقاء سے  بھی بیرونی ذرائع سے زبردستی نہیں  کی جا سکتی  (بچے کو ٹیچر کی نقل کروانے ، کتاب سے پڑھنے اور بلیک بورڈ سے نقل کروانے کے ذریعے) ۔ابتدائی ذہنی ارتقاء  ابتدائی  جسماتی ارتقاء   کی طرح قدرتی ہے، تمام بچے بڑھتے ہیں۔ اور آخر کار مختلف قد کو پہنچتے ہیں لیکن ان کےبچپن کے سالوں میں ہم نہیں جانتے کہ کون کتنا لمبا ہوگا۔ ہم صرف ان کی ارتقاء میں مدد کرتے ہیں ۔  لہذا ابتدائی ذہنی ترقی بچوں کی صلاحیتوں اور ذہنی قابلیتوں وغیرہ میں  فرق پیدا نہیں کرتی۔تمام بچوں کو جتنا وہ سیکھنا چاہتے ہیں اتنا سیکھنے کا موقعہ دینا چاہئے۔  صرف  ہائی اسکول میں بچے اپنی  صلاحیتوں اور  اعلی قابلیتوں کی بنیاد پرمخصوص مضامین کا انتخاب کرتے ہیں۔

ٹیچنگ(تعلیم دینا) ایک عوامی سرگرمی ہے ، ایک ٹیچر کو اپنی کلاس کے لئے تیاری کرنی پڑتی ہے، اسے کیا تعلیم دینی ہے اس کا انتخاب کرنا پڑتا  ہے، اسے سلسلہ وار یہ کام کرنا پڑتا ہے، اسے امتحان لینا پڑتا ہے اور جوابی پرچوں کی تصحیح کرنی پڑتی ہے۔ لرننگ(تعلیم حاصل کرنا) ایک ذاتی سرگرمی ہے  جب یہ ہوتی ہے نا قابلِ مشاہدہ ہوتی ہے یہ غیر متوقع طریقے سے انجام پا سکتی ہے اور اس کے غیر متوقع نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔تعلُّم (سیکھنا یا لرننگ) تعلیم(سکھانا) کی عدم موجودگی میں بھی ہو سکتا ہے : ہم کہتے ہیں کہ بچہ چلنا سیکھتا ہےلیکن کسی پرندے کو اڑنا اور مچھلی کو تیرنا سکھاے جانے سے ذیادہ سنجیدگی سے ہم بچے کو چلنا نہیں سکھاتے۔

اسی طرح سے ہم کہتے ہیں کہ بچہ بات کرنا ‘ سیکھتا’ہے لیکن یہ تو صرف بات کرنے کا طریقہ ہے ۔ بچہ کا بات کرنا ویسا ہی ہے جیساسورج کا مشرق میں طلوع ہونا اور مغرب میں غروب ہونا۔ سورج کا ‘طلوع’ ہونا نمایاں ہے اور بچے کا زبان ‘سیکھنا’ نمایاں ہے لیکن در حقیقت بچہ زبان کی تجدید کرتا ہے اور معانی کو بتانے کے لئے  اسے استعمال کرتا ہے۔ ایک بچہ کسی تصویر کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھتا ہے کہ

 “The lion is afraiding the man”

“شیر آدمی کو ڈراتا ہے۔” یہ بہرحال صحیح انگریزی نہیں ہے اور ہمیں امید  ہے ہےکہ بچہ کبھی تو یہ بات سمجھ جائیگا۔

لیکن جب بچے کو کسی فعل کے استعمال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جو جماعت اول میں جبکہ انگریزی بچے  کی سیکنڈ لینگویج ہوتی ہے،  وہ بالکل وہی کرتا ہے جیسا وہ بچے جو 3 تا ۔5 سال کی عمر میں سیکھتے ہیں اور   جنکی مادری زبان خود انگریزی ہوتی ہے

وہ کہتے ہیں کہ : “Don’t giggle me” جو دراصل مجھے مت ہنسائو کا ٹوٹا پھوٹا انگریزی جملہ ہے۔ کبھی کبھی بچہ  ‘she made it go there’ کی بجائے  

She goes it there‘ کا استعمال کرتا ہے۔ 

کبھی کبھی بچے کچھ ایسے جوابات دیتے ہیں جو بالکل قابل قبول ہوتے ہیں لیکن وہ ایسی چیزیں نہیں ہوتیں جو ہم انہیں سکھاتے ہیں۔

ذہن میں زبان کے ارتقاء کے لئے  ہمیں بچے کو معنی خیز باتیں مہیا کرنے کی ضرورت ہے ۔ در اصل یہی وہ بات ہے جسے بچہ ہماری کہانی میں  دیکھ رہا  تھا۔’جب ٹیچرنے کہا کہ میرے دو ہاتھ اور دس انگلیاں ہیں’ ؛اس بچے نے سوچا کہ ٹیچر بچوں کے ساتھ کچھ (علم) بتا رہی ہے جیسے کہ وہ کہہ رہی ہو’میرے پاس کتا ہے، مجھے شربت پسند ہے، مجھے بھوک لگ رہی ہے وغیرہ۔ فطری طور پر بچہ معانی کو دیکھتا ہے؛یہ  بچے کے لئے صرف اس کے لئے زبان کا استعمال براے استعمال کرنا نہیں ہوتا  بجز ایک کھیل، گانے یا ڈرامے میں۔ لہذا ابتدائی اسکول میں گانوں ، کہانیوں، نظموں اور ڈرامے کے ذر یعے  زبان سکھانے کے آسان طریقہ ہے۔ ترنم زبان کو قابل یاد بناتی ہے، کہانیوں میں بچے دلچسپی لیتے ہیں اس طرح سے زبان کوبڑیاآسانی سےسکھا یا جا سکتا  ہے۔ دنیا کے کئ ممالکاور ہندوستان میں بھی بہت ساری تحقیقات کی گئ ہیں جس میں کہانیاں سنانے کے ذرئع بچوں میں زبان کو ترقی دی جا سکتی ہے اور ذہن کو دنیا کے بارے میں سوچنے پر ابھار جا سکتا ہے۔

سننے اور بولنے کے لئے بہت کچھ ہے ؛لیکن پڑھنے، لکھنے اور ہجے کے لئے؟ یہاں پھر کچھ مراحل ہیں جو بتاتے ہیں کہ بچہ کیا سمجھ رہا ہے۔ اگر ان ‘غلطیوں ‘ کو بڑے لوگوں کے کام کرنے کے طریقے کے مشابہ سمجھ لیا جائے تو انہیں سیکھنے کی شہادت کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں ۔ ہر ٹیچر اپنے سیکھنے کے شواہد دیکھنا چاہتا ہےاپنی کوششوں کے تاثرکے طور پر اور کچھ دستاویزات جمع کرتا ہے تاکہ وہ پرنسپل اور والدین کو دکھا سکے۔  لیکن ذہنی سرگرمی کے بغیر محض ٹیچر کی نقل سیکھنے کی شہادت نہیں ہو سکتی لہذا چھوٹے بچوں کی غلطیوں سے مبرا نقل بھی تعلیم کی شہادت نہیں ہو سکتی۔ ایک بچہ جو teacher کے ہجےtchr کرتا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ حروف اپنی آوازیں رکھتے ہیں ؛ایک بچہ جو پڑھنے کا بہانا کر تا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ایک صفحے پر کچھ نشانیاں ہیں جن کو بحیثیت زبان ادا کیا جا سکتا ہے ۔ پڑھنے کی تحقیق نے ہمیں ایک قول محال بتایا ہے : وہ بچہ جو نہیں پڑھتا ، لیکن وہ یا تو رٹ رہا ہے یا پھر تصنع کے ساتھ پڑھ  رہا ہے  وہ غلطیاں کئے  بغیر فصاحت سے پڑھتا ہے ۔( یہ ایک تین سالہ بچہ ہو سکتا ہے جس کے پاس چھوٹے بچوں کی نظموں کی کتاب ہے)۔ جب بچہ خود سے پڑھنے کی کوشش کرتا ہے  وہ آہستہ پڑھتا ہے ، غلطیاں ہوتی ہیں کیونکہ اب وہ اصل میں خود سے پڑھ رہا ہے۔ تعاون اور مسلسل جد جہد کے ساتھ اور ٹیچر کا بچے کے لئے پڑھ کر سنانا اور اس کے ساتھ پڑھنے سے بچہ پڑھنا سیکھ لیتا ہے۔بچے کے ‘ پڑھنے کی کوشش کرنے’  سے ‘ حقیقت میں پڑھنا ‘ کی طرف منتقلی میں حکمت  سے کام لینا ضروری ہے۔

مسئلہ یہ نہیں ہے کہ بچہ پڑھنے لکھنے کے دوران کھیل کود کا عمل کرتا ہے  لیکن مسئلہ یہ ہے  کہ  اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ٹیچر اور اسکول بچے کے کھیل کود کے ذریعے پڑھنے لکھنے اور اصل چیز میں امتیاز نہیں کر سکتے۔ بچے سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ بورڈ سے سوال جواب نقل کرلئے جائیں؛ اسے لکھنا کہتے ہیں۔ کوئی بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ بچہ  الفاظ کو حرف بہ حرف نقل کر رہا ہے  اور معنی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ لیکن ہم نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ بچہ معنی معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔پھر کیا غلطی ہوئی ہے؟

تعلیم اور تعلیمی شہادتوں کو اکٹھا کرنے کے نام پر ہم ذہن کے قدرتی طریقہ تعلیم میں مداخلت کر رہے ہیں۔ آگے آنے والے تجربے کا تصور کیجئے۔لوگوں کو ایک کمرے کی تصویر دی گئی  اور ان سے کہا گیا کہ وہ اسے ایک منٹ تک دیکھتے رہیں ، ایک گروپ سے کہا گیا کہ اس تصویر میں کچھ  Xs کو سیاہی سے لکھا گیا ہے   اور وہ ان کی نشاندہی کریں گے۔ تصویر کو اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں غور سے دیکھنے کے ذریعے (ایک ذیلی گروپ)یا پھر اس تصویر کے کناروں کو دیکھتے ہوئے (دوسرا ذیلی گروپ)۔حقیقت میں اس تصویر میں کوئی Xs نہیں ہے۔ دوسرے گروپ سے کہا گیا کہ وہ تصویر کو دیکھیں اور اس کے بعد وہ کیا کیا کام کرسکتے ہیں اس کی نشاندہی کریں (ایک ذیلی گروپ)  یا پھراس کی  کچھ  ذہنی تصویریں بنائیں (دوسرا ذیلی گروپ) ۔ ایک منٹ کے آخر میں  پہلا گروپ تین سے آٹھ چیزوں کو یاد کر سکتا ہےاور دوسرا گروپ پچیس سے بتیس چیزوں کو یاد کر سکتا ہے۔

محرک اور دیا گیا وقت ایک ہی تھا  اور لوگوں کا انتخاب بھی بے ترتیب ہوا تھا، نتیجہ کیا نکلا؟ الگ الگ ہدائتیں دی گئں جن کے نتیجہ میں ذہن مختلف کام کرنے لگے۔  ذہنی سرگرمیوں میں تھا۔ پہلا گروپ  کو تلاش کر رہا تھا اور دوسرا گروپ چیزوں کو دیکھ رہا تھا اور انکے بارے میں غور  کر رہا تھا۔  Xs ۔ حالانکہ لرننگ(تعلیم) ایک اندرونی اور ذہنی سرگرمی ہےلیکن  یہ ہمارےسکھانے کے طریقوں سے(ٹیچنگ) سے متاثر ہوئی ہے ۔

ذہنی سر گرمی کی ہم ترغیب کیسے دے سکتے ہیں؟ اسے سوچنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ذہنی سرگرمی کو سمجھنا ہوگا۔سیکھنے اور یاد رکھنے میں  کچھ مراحل ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں کچھ چیزوں  کو سمجھنا اور غور کرنا ہوگا۔اور اسے ہمیں اپنے حافظے میں رکھنا ہوگا اور جب ہم چاہیں تب ہمیں اسے یاد کرنا ہوگا۔ (ہم سب نے ‘ ٹپ آف دَ ٹنگ’ کا تجربہ کیا ہے جب ہم  کچھ جانتے ہیں  لیکن یاد نہیں کر پاتے۔

شعور کے بہت پہلے مرحلے اور توجہ پر تحقیق سے معلوم  ہوتا ہے. توجہ کو  شعور کے معنی خیز پہلو کی طرف رہنمائی کی جاےء۔۔  یہ ایک پہلے ہی سے معلوم شدہ ثبوت  ہے جس کا تجربہ اوپر مذکور ہو چکا ہے۔

ہمارے اصولوں اور سوالوں پر انحصار کرتے ہوئے ہمارے طلبہ مختلف اوقات محرک پر غور کرتے ہوئے  صرف کرتے ہیں  ۔  کیا کچھ سوالات دوسرے سوالوں کی بنسبت معنی خیز ہیں؟ جی ہاں۔

ایک سادہ سی مثال ‘خالی جگہ بھرو ‘ کی لیجاسکتی ہے۔  ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی لفظ کوبآسانی رکھا جا سکتا ہے اگر خالی جگہ کے ساتھ والا جملہ قواعدی پیچیدگیاں رکھتا ہو۔ لہذا “ایک لڑکی نے غصہ میں ____ کو اٹھایا ” ایک پیچیدہ جملہ بنسبت ” ایک پکے ہوئے ____ کا مزہ بہت اچھا تھا”۔

 انتباہ کے کچھ لفظ: ایسے جملے دینےسےجو اس قدر پیچیدہ ہوں کہ بچہ سمجھ ہی نہ سکے مقصد پوارا نہیں ہوتا۔    دراصل نکتہ اس بات کہ خلاف ہے’ کہ بہت آسان جملےدئے جائیں تا کہ بچے صحیح جواب لکھ سکیں’۔ اگر جملے بہت آسان ہوں تو بچوں کیلئے بےمعنی ہو جاتے ہیں اور انکو نہیں لگتا کہ کوئی بھی کبھی انکا استعمال کرتا ہے۔ اس موقع پر بچے جملے پر غور کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

آخرمیں کچھ ذاتی دلچسپی سے متعلق۔   ایک پی ایچ ڈی کے  طالب علم   نے معلوم کیا  کہ ایک بچہ جو دوسرے عناوین پر اچھا نہیں لکھ سکتا ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں اچھا لکھے۔

غالبًا یہ سیکھنے کا راز ہے بشمول زبان سیکھنے کے :اس کا ہماری ذات سے تعلق ہے۔ پھر  ابتدائی اسکول  کا کام یہ ہے کہ وہ سیکھنے  کو ہر بچے کےلئے جتنا ہو سکے اتنااسکی ذات سے متعلق بنائے:  بچو ں کے لئے  اسکول کو گھر کے جیسا قریب بنانئں اور کھیل کے میدان کی طرح پسندیدہ تاکہ وہ قدرتی طور پر پڑھے اور بڑھے۔ بچے کے بارے میں  خام جوان کا تصور ہمیں اس چیز کے بارے میں مشکوک ہونا سکھاتا  ہے جسے کرنے میں بچہ مزہ لیتا ہے اور اسی لئے ہماری اسکول کو کھیل کود  کے میدان سےبالکل الگ بناتا  ہے۔دوسرے تصور کے مطابق تصوارات ذہن کے کھیل کود کے میدان ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر بچے کو ان کھیل کود کے میدانوں تک رسائی  فراہم کریں۔

 

منتخب حوالہ جات

Prabhu, N. S. n.d. “Teaching is hoping for the

.best.” Unpublished ms

Amritavalli, R. 1998. “The pragmatic

underpinnings of syntactic competences,”

Journal of Pragmatics 29, 661-680.

l999. “Dictionaries are Unpredictable,” ELT

Journal 53/4, 262-269. Essex, U.K

Language as a Dynamic Text: essays on
language, cognition and communication

Hyderabad: CIEFL Akshara series.

Howe, Michael J.A. 1984. A Teacher’s Guide to the

Psychology of Learning. Basil Blackwell.

یہ مضمون پہلی بار ‘دا پرائمری ٹیچر’ جلدXXXنمبر 3-4، جولائی اور اکتوبر ؁۲۰۰۵ء، ISSN:0970-9282 میں  NCERT دہلی سے، شعبہ  اشاعت کے سربراہ کی جانب سے   شائع ہوا تھا۔ تعلیمی مدیر شبنم سِنہا۔


آر امرتا ولّی جامعہ برائے انگریزی اور  بیرونی لغات حیدرآباد میں شعبہ لسانیات کی پروفیسر ہیں۔ انہیں خالص علمی و نظری لسانیات میں فرسٹ اینڈ سیکینڈ لینگویج  کے حصول میں دلچسپی ہے۔ انہیں درج ذیل ای میل ہر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

[email protected]

 

Author: Syed Mazhar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے