(NCF)زبان اور قومی نصابی ڈھانچہ

زبان ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعہ بچےاپنے آپ سے اوردوسروں سے بات کرتے ہیں،الفاظ ہی کے ذریعہ وہ اپنی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور اسکی تشکیل کرتے ہیں۔ ‘سیکھنے ‘کیلئے زبان کو سمجھنے اور مہارت کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت ضروری ہے۔ زبان محض ایک ذریعہ گفتگو  ہی نہیں  ہے بلکہ یہ ایک ایسا وسیلہ بھی ہے جس کے ذریعہ ہم اپنا علم حاصل کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظم ہے جو  بہت حد تک ہمارے گرد و نواح کی حقیقت کو اسطرح بناتا ہے کہ ہمارے ذہن اسے سمجھ سکیں۔ یہ ہماری پہچان کا نشان ہے اور سماج میں قوت سے اسکا گہرا تعلق ہے۔

قومی نصابی ڈھانچہ؁2005ء اس نقطہ نظر کو تسلیم کرتا ہیکہ انسان فطری طور پر زبان کی لیاقت اپنے اندر رکھتا ہے۔ بچے اسکول کو ایک یا کئی زبانوں میں گفتگو کی قابلیت کے ساتھ آتے ہیں۔ جب بچے اسکول میں داخل ہوتے ہیں تو انکے پاس صرف ہزاروں الفاظ کا ذخیرہ ہی نہیں ہوتا بلکہ مخارج، الفاظ، جملے اور مباحث کے پیچیدہ اور جامع لسانی قواعد بھی انکے قابو میں ہوتے ہیں۔ این سی ایف کے مطابق زبان کے معلمین کیلئے ضروری ہیکہ وہ  کثیراللسانیت کے اصولوں کو کلاس روم میں ایک ذریعہ، حکمت عملی اور منزل کے طور پر استعمال کریں۔  یہ صرف ایک تیار شدہ ذریعہ کا بہترین استعمال ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بچوں میں تحفظ اور قبولیت کا احساس ہوتا ہے اور  زبان کی وجہ سے پیچھے چھوٹ جانے کا خوف بھی ختم ہو جاتا ہے۔

این سی ایف  کے مطابق روزانہ کی عمومی اور بنیادی ضروریات کیلئے بنیادی لسانی صلاحیتیں کافی ہیں جیسے    پئیر–گروپ  کی مجالس کیلئے۔اعلی درجے کی صلاحیتیں ان حالات میں ضروری ہیں جنکا سیاق و سباق نہ معلوم ہو اور جو سنجیدگی کا تقاضہ کرتے ہوں جیسے خیالی مسئلہ پر مضمون لکھنا۔

اسی لئے، فرسٹ لینگویج میں تعلیم کا مقصدکلاسروم میں گفت و شنید اور سنجیدگی کی اعلیٰ سطحی صلاحیتوں کو مسلسل پروان چڑھاتے ہوئے  ان بنیادی صلاحیتوں میں نکھار لانا ہے۔  بنیادی ابتدائی سطح  پر  بچے کی زبانوں کوبغیر کسی مداخلت کے جوں کا توں  قبول  کیا  جائے۔ جماعت سوم سےآگے تنقیدی نظر اور اعلیٰ سطحی گفت و شنید کی صلاحیت کو پروان چڑھانے اور سیکھنے کیلئے خواندگی اور تلفظ  ہی اہم ترین ذرائع ہیں۔  جماعت چہارم  میں پہنچنے تک  اگر دلچسپی سے بھرپور ماحول فراہم کیا  جائے  تو بچہ کسی معیاری طریقہ اور املا و ہجے کا علم حاصل کرلے گا بشرطیکہ بچے کی زبان کا احترام ملحوظ رکھا جائے۔  اس بات کو ضرور قبول کیا جا ئے کہ غلطیاں ،سیکھنےکا جزو لاینفک ہیں  اور بچے اپنی تصحیح اسی وقت کرتے ہیں جب وہ اس کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ بچوں کی غلطیوں پرتوجہ مرکوزکرنے کے بجائے  یہ بات بہت بہتر ہوگی کہ انہیں دلچسپ تفہیمی اورچیلنجنگ  مشورے فراہم کریں۔

این سی ایف کے مطابق زبان کی تعلیم لینگویج  کلاس روم تک محدود نہیں ہونی چاہئے۔سائنس  ،سماجی سائنس اور ریاضی کے کلاسس سے بھی اپنے آپ میں لینگویج کلاس ہیں ۔ کسی مضمون  کو سیکھنے کا مطلب اصطلاحات کو سیکھنا ، تصورات کو سمجھنا  اور اس قابل ہونا ہے کہ اس کے متعلق تنقیدی نظر سے تقریر و تحریر کر سکے۔  اسی دوران لینگویج کلاسس بچوں کو انوکھے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ کہانیاں، نظمیں، گیت اور ڈرامہ بچوں کو اپنے تہذیبی ورثہ سے جوڑتے ہیں اور انہیں اپنی شخصیت کو سمجھنے اور دوسروں کیلئے حساس بننے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔شاید، تفصیلی اور اکثر بیزار کردینیوالی قواعد کی کلاس کےبالمقابل بچےاسطرح کی سرگرمیوں سے قواعد کو آسانی سے سیکھتے ہیں ۔

زبان کو سیکھنے کے لئےبچے کو مشوروں سے بھرپورگفتگو کا ماحول ملنا شرط ہے۔ ان مشوروںمیں نصابی کتابیں ، بچے کی منتخب  کردہ کتابیں، کلاس لائبریری  جس  میں مختلف النوع کتابیں ہوں:پرنٹ(مثلًاچھوٹے طلبا کیلئے بڑی کتابیں)؛   ایک سے زیادہ زبانوں میں مماثل کتابیں اور مواد ؛میڈیا  کے ذرائع (طلبا کے لئے مجلے، اخبارات کےکالم ، ریڈیو اور آڈیو کیسٹس)؛ اور مستند مواد وغیرہ ۔

زبانی صلاحیت کی تشخیص کے متعلق این سی ایف کا کہنا ہے کہ اسے ایک مضمون میں کامیابی کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ زبان کی مہارت  کی پیمائش پر جانچ کی جائے۔ فی الحال جاری تشخیص طلبا کے ارتقاء کو پورٹ فولیو کے طرز پرمحفوظ کر سکتی ہے ۔زبان کی مہارت سے متعلق قومی سطح پر نشان راہ واضح ہونے چاہئے۔ این سی ایف انگریزی (بشمول علم ریاضی کے)  کےدسویں کلاس میں فیل ہونے کی اہم ترین وجہ ہونے پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔

اکثر زبان کے اساتذہ بولنے کی تدریس میں زبان کو سماج میں اظہار اورشمولیت کے ذرئیعہ کے بجائے قواعدی اور لفظی درستگی کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ این سی ایف اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے  کہ “ہمارے نظام میں کلاس روم میں بات کرنا ایک منفی عمل کی حیثیت سے جانا جاتاہےاور اساتذہ کی اکثر توانائی بچوں کو خاموش کرانے اور صحیح تلفظ سکھانے میں صرف ہو جاتی ہے۔ اگر اساتذہ کلاس کے دوران بچے کے بات کرنےکو ایک مضر  یا منفی عمل  کے  بجائے  ایک موقع کی حیثیت سے دیکھتے ہیں   تو مزاحمت اور روکتھام کا یہ  سلسلہ  اظہار اور جواب کا  سلسلہ بن سکتا ہے۔ گفتگو کو ایک تدریسی ذریعہ کے طور پراستعمال کرنے سے متعلق تشفی بخش تحقیق ہو چکی ہے اور کافی علم دریافت کیا جا چکا ہے اور ملازمت سے پہلے یا ملازمت کے دوران  کے ٹیچر ٹریننگ پروگرامس میں اس علم  کو متعارف کرانا ضروری ہے۔”

ٹیچنگ – لرننگ مواد اور سرگرمیوں کو  بچوں میں  کچھ دیر کیلئے    اجتماعی گفتگو) گروپ ٹالک(کو فروغ دینا چاہئے اور انکے اندر  مماثل اور متضادکی صلاحیت ، بھٹکنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت ،  قیاس اور دعویٰ کی صلاحیت، فیصلے اور تشخیص کی صلاحیت کو نشونما دینا چاہئے۔ سننےیا آاڈیو ذرائع  اور سرگرمیوں کو بچوں کے اندر متوجہ ہونے،   دوسروں کے نقطہ نظر کا احترام کرنے،  چل رہی گفتگو سے  جڑے رہنے اور  کہی گئی بات کے مطلب کا ایک لچکدار مفروضہ قائم کرنے کی صلاحیتوں کو تقویت دینا چاہئے۔

این سی ایف کے مطابق کہانیاں سنانا نہ صرف اسکول سے پہلے کی تعلیم میں اثر دار ہے بلکہ اسکول کے دور میں بھی اہم ہے۔یہ بات واضح کرتی چلوں کہ زبانی بولی جانے والی کہانیوں سے منطقی فہم کی بنیاد بنتی ہے،اور یہ کہانیاں بچوں کے تصور کو پھیلاتی ہیں اور انہیں اپنے سے دور ہونیوالے واقعات میں بالواسطہ شریک ہونے کی صلاحیت کو تقویت دیتی ہیں۔

ایک طرف پڑھنے کو بلا جھجک زبان سیکھنےکیلئے اہم تسلیم کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اسکول کےنصاب  پر  معلومات کے انجذاب اور یاد دہانی  کی سرگرمیوں کا اتنا بوجھ ہیکہ پڑھائی بغرض پڑھائی  کی خوشی اور مزہ بالکل چھوٹ گئے ہیں۔مطالعہ  کے ماحول کوپروان چڑھانے کے لئے انفرادی مطالعہ کے مواقع اسکول کی ہر سطح پر   فراہم کرنا ضروری ہے اور اساتذہ اپنے آپکو اس معاملہ میں ایک مثال بناکر پیش کریں۔

این سی ایف اس بات کی نشاندہی کرتا ہیکہ اساتذہ ہمیشہ لکھنے کے صحیح طریقہ پرزور دیتے ہیں۔تحریر کے ذریعہ بچوں کے افکار اور جذبات کے اظہار کو اہمیت نہیں  دی جاتی۔جسطرح وقت سے پہلے تلفظ پر لگائے جانیوالے شرائط بچے کی اپنے انداز اور تلفظ میں آزادانہ بات کرنے کی تحریک کو کچل دیتے ہیں اسی طرح  مشینی انداز میں صحیح طریقہ پر لکھنے کا مطالبہ بچے کی اپنے خیالات اور جذبات کو ظاہر کرنے کی خواہش ختم کر دیتا ہے۔ اساتذہ کو اس بات پر آمادہ کیا جائے اور اس کی تربیت دی جائے کہ لکھنے  کو وہی مقام دیں  جیو مقام فن اور آرٹ کو دیا جاتا ہے اور اسے ایک دفتری صلاحیت نہ سمجھیں ۔ ابتدائی تعلیمی سالوں میں  لکھنے کی  قابلیت  کو  مجموعی طور پر  بولنے ،سننے اور پڑھنے کے ادراک کے ساتھ  پروان چڑھانا چاہئے۔اسکول کے  درمیانی  اور اعلی درجوں میں تحریر یا نوٹ بنانے کو صلاحیت کے ارتقاء کی مشق کے طور پر اہمیت دینی چاہئے۔ اس سےبہت حد تک مشینی انداز میں  بلیک بورڈ، ٹیکسٹ بک اور گائڈ  سےہو بہو  نقل کرنے  کی پست ہمتی ہوتی ہے۔ خط اور مضمون لکھانے کی عادت کو ختم کرنا بھی ضروری ہے تا کہ تخیل اور تخلیق کو تعلیم میں نمایاں کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے۔

بچے پڑھنا کیوں نہیں سیکھتے؟

اساتذہ میں طریقہ تعلیم کی بنیادی صلاحیت ( طالب علم کی سمجھ، تفصیل سے بتانا اور مناسب سوالات کرنا وغیرہ)اور، خواندگی  سیکھنے کا طریقہ ، باٹم-اپ طریقہ میں مناسب نکات کی واقفیت جیسےلفظ کی ہجے کرنا اور حرف کاتلفظ اور ٹاپ-ڈاون  طریقہ میں الفاظ کی شناخت اور تحریر کی سمجھ وغیرہ کے فہم کافقدان ہے۔اکثر اساتذہ کلاس کو منظم رکھنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہوتے ہیں۔انکی نظر ہمیشہ تصور اورطریقہ اظہار کے بجائے طلبہ کی غلطیوں پر ہوتی ہے۔

استاد بننے کی تربیت میں  پڑھنے کی تدریس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی اساتذہ کی ٹریننگ میں اس کو  شامل کیا جاتا ہے۔

نصابی کتابوں کو  عبوری طرز پر لکھا گیا  ہے  جس میں  پڑھنا سکھانے کے تدریسی اصولوں کے تسلسل کو مدنظر نہیں رکھا گیا ہے ۔

 پسماندہ طبقات خصوصاً پہلی نسل  کے سیکھنے والے بچے اساتذہ میں قبولیت حاصل نہیں کر پاتے اورنصابی کتابوں سے تعلق بنانا انکے لئے بےحد دشوار ہوتا ہے۔

پڑھائی شروع کرنے کی   قابل عمل   تدابیر:

۔  کلاس روم طبع شدہ مواد  سے آویزاں ہو جس میں علامات ، چارٹس،  کام کو منظم کرنے کی ہدایات ہوں۔ اس سےحرف اور تلفظ میں ربط پیدا ہوتا ہے اور  لکھے ہوئے مواد کی علامتی سمجھ پیدا ہوتی ہے۔

۔تصوراتی مشوروں کی بھی ضرورت ہے جس میں مناسب اشارےاور ڈرامائی عناصر ہوں جو بچہ کی سمجھ میں آسکیں۔

۔بچوں کے بیان کردہ تجربات  کو لکھوائےاورپھرلکھے ہوئے کو پڑھائے۔

۔نصاب سے  زائد مواد کا پڑھنا جیسے نظمیں اور کہانیاں وغیرہ۔

پہلی نسل کےاسکول آنیوالے بچوں کو اپنی لپی بنانے کا موقع  دیں اور انکے منتخب کردہ مواد کو کلاس روم میں اختیار کریں۔

از: این سی ایف  2005

اندو پرساد، عظیم پریم جی فاؤنڈیشن  بنگلور کی تعلیم اور طریقہ تعلیم کی  ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے گزشتہ پندرہ سالوں سے زائد کرناٹک اور تمل ناڈو میں اسکول ٹیچر کی حیثیت سے   میں کام کیا ہے۔ خاص طور پر اعصابی چیلنجز رکھنے والے طلبا کے ساتھ۔ 

[email protected]ان سے    اس  ای میل آڈی   کے ذریعے رابطہ   کیا جا سکتا  ہے ۔

Author: Syed Mazhar

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے