اسکول میں زبان و ادب کی تعلیم پر جامعہ ملّیہ اسلامیہ اورعظیم پریم جی یونیورسٹی کی مشترکہ سیمینار

محترم/ محترمہ

عظیم پریم جی یونیورسٹی گذشتہ تین سالوں سے ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے اشتراک سے اسکول کی تعلیم سے متعلق مضامین پر ہندوستانی زبانوں میں سیمینار منعقد کررہی ہے۔ اب تک ہم نے ہندی، کنڑ، اور پنجابی زبانوں میں مختلف موضوعات پر مکالمے کیے ہیں۔

‘تعلیم کے سروکار ‘ کے عنوان سے اس سلسلے کاتین روزہ سیمینار9 تا 11 اکتوبر2020 میں اردو اور ہندی زبانوں میں ‘ زبان کی تدریس ‘ سے متعلق موضوعات پر ترتیب دیا جارہا ہے۔ اس سیمینار کا انعقاد ڈپارٹمنٹ آف ٹیچرز ٹریننگ اینڈ نان فارمل ایجوکیشن (آئی۔اے۔ایس۔ای)، فیکلٹی آف ایجوکیشن، جامعہ ملّیہ اسلامیہ، نئی دہلی اورعظیم پریم جی یونیورسٹی مشترکہ طورپر کر رہی ہیں۔سیمینار جامعہ ملّیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں منعقد ہوگا۔

سیمینار کا نظریاتی خاکہ( Concept Note) آپ نیچے پڑھ سکتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس نظریاتی خاکے میں ذکر کردہ موضوعات میں سی کسی ایک موضوع پر ایک علمی اور تحقیقی مقالہ ارسال کرکے آپ اس سیمینار میں شرکت کرنے پر غورکریں گے۔برائے مہربانی مقالہ ارسال کرنے سے قبل ہمیں مقالے کی تلخیص(Abstract) بھیجیں ۔
تلخیص اور مقالہ ارسال کرنے کی آخری تاریخوں کی تفصیلات نظریاتی خاکے میں درج ہیں۔
اگرآپ اس سے دلچسپی رکھنے والے دیگر ممکنہ شرکاء کے ساتھ منسلک نظریاتی خاکہ شئیر کرتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوگی۔

نیک تمناؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ
گُرجیت کور، پروفیسر، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی
منوج کُمار، اسسٹنٹ پرفیسر، عظیم پریم جی یونیورسٹی، بنگلور

تعلیم کے سروکار-4

نظریاتی خاکہ
(Concept Note)

 

زبان کی تدریس، غوروفکر اور تخلیقی صلاحیتیں
اسکول کی تعلیم میں زبان و ادب کی تعلیم پر سیمینار،
نئی وہلی 2020 اکتوبر 11تا 9

‘تعلیم کے سروکار’ سیریز کا چوتھا تین روزہ سیمینار 9 تا 11/اکتوبر 2020 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں منعقد کیا جائے گا۔یہ سیمینار ڈپارٹمنٹ آف ٹیچرز ٹریننگ اینڈ نان فارمل ایجوکیشن (آئی۔اے۔ایس۔ای)، جامعہ ملّیہ اسلامیہ،نئی دہلی اورعظیم پریم جی یونیورسٹی کی مشترکہ سرپرستی میں ہوگااور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے صد سالہ جشن کی تقریبات کا ایک حصہ ہوگا۔ سیمینار’ زبان کی تدریس’ کے موضوع پر مبنی اور تخلیقی صلاحیتوں جیسے عناوین پر مشتمل ہے۔ سیمینارمیں مکالمہ اور بحث ومباحثہ کے ذریعہ اردو اور ہندی ہوگا۔

سیمینار سیریز کا پس منظر

پچھلی کچھ دہائیوں میں ملک کی بہت سی یونیورسٹیوں میں اسکولی تعلیم کے اصولوں اور طریقوں پر منحصر علمی بحث و مباحثے کے انعقاد کے لیے بہت سارے جامع اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان میں نئے پروگراموں کی تشکیل اور موجودہ نصابوں پر نظر ثانی بھی شامل ہے۔ہمارا یہ ماننا ہے کہ اس طرح کے پروگراموں کے انعقادسے اسکول کی تعلیم سے متعلق مسائل سے معاشرے میں بیداری آئے گی۔لیکن ساتھ ہی ان پروگراموں کے معیار کو بہتر کرنے اور انھیں مزید شمولیاتی اور جامع بنانے کے لیے ان کو ہندوستانی زبانون میں متعارف کرانابھی ضروری ہے۔یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ ہندوستانی زبانوں میں علمی بحث ومباحثے کے ساتھ ساتھ علمی ادب کی تخلیق بھی کی جانی چاہیے۔سیمینار کا انعقاد اسی سمت میں ایک چھوٹی سی کوشش ہے جس میں پیش کیے جانے والے علمی اور تحقیقی مقالے ہندوستانی زبانوں میں ہوں اور ان پر ہندوستانی زبانوں میں ہی گفتگو ہونی چاہیے۔

عظیم پریم جی یونیورسٹی نے ‘ انووادپہل’ پر وگرام کے تحت دوسرے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس طرح کے سیمینارمنعقدکرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔’ انووادپہل’ ٹیم کا کام عظیم پریم جی یونیورسٹی کے مقاصد اور وِژن پر مرکوز ہے جس میں مختلف معاشرتی اور معاشی پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلبا کی ایک بڑی تعداد کو معیاری اعلیٰ تعلیم اور پڑھنے کا مواد فراہم کرنا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی زبانوں میں معیاری مواد کی دستیابی اور معیاری اعلیٰ تعلیمی پروگرام ہونے سے تصورات اور نظریات کو فروغ حاصل ہوگا۔ان سیمیناروں میں پیش کیے جانے والے منتخب علمی اور تحقیقی مقالوں کو کتاب کی شکل میں شائع کرنے کا بھی منصوبہ ہے تاکہ وسیع پیمانے پر ان کی اشاعت کی جاسکے۔پہلے سیمینار سے منتخب کیے جانے والے مقالات کی دو تالیفیں اشاعت کے لیے پریس میں ہیں۔

اس حوالے سے ابھی تک تین سیمینار منعقد کیے جاچکے ہیں۔ جن کی علمی و ادبی دنیا میں زبردست پذیرائی ہوئی ہے۔پہلا سیمینار2017 میں دہلی میں امبیڈکر یونیورسٹی، دہلی کے ساتھ” اسکولی تعلیم کے بدلتے ہوئے تناظر میں درس وتدریس کا خاکہ” کے موضوع پرمنعقد ہواتھا۔دوسرا سیمینارموہالی میں 2018 میں انڈین سائنس ایجوکیشن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، موہالی کے ساتھ ” سائنس اور سائنسی تعلیم” کے موضوع پر اور تیسرا سیمینار فیکلٹی آف ایجوکیشن، دہلی یونیورسٹی، دہلی کے ساتھ” ریاضی کی تعلیم: توقعات اور چیلنجز” کے عنوان سے منعقد ہواتھا۔

زبان کی تدریس

زبان کو انسان، ثقافت، معاشرے کی تخلیق اور نشو ونما کی اساس سمجھا جاتا ہے۔یہ بات بھی واضح ہے کہ زبان ان سب سے مختلف نہیں ہے بلکہ ان سب میں پیوست ہے۔ان سب کے تناظر اور سیاق اگرچہ مختلف ہیں لیکن ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں۔زبان کے بغیر ہم نہ انسانوں پر بحث کرسکتے ہیں اور نہ ہی معاشرے اور ثقافت پر۔جب بھی زبان کی بات ہوگی، ان کے بارے میں بھی کی جائے گی۔دوسرے لفظوں میں یہ معاشرے اور ثقافت کو تشکیل دیتی ہے اور خود بھی اس کے تشکیل پاتی ہے۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زبان نہ صرف انسانی افکار کی نشوونما کی بنیادہے بلکہ انسانی افکار کو وجود میں بھی لاتی ہے اوراس کے بغیر انسانی فکر ممکن نہیں ہے۔

تعلیم کی ہرسطح پر زبان مرکزی اور خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔غورکرنا، اپنے خیالات کو مہمیزکرنا، ان کو مختلف طریقوں سے وسعت دینا، ان سب کے لیے زبان ضروری ہے۔اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ بچے اپنی زبان یعنی وہ زبان جس کا اکتساب انھوں نے اپنے گھراور سماجی ماحول میں کیا ہے، اس میں وہ ہر طرح کی بات چیت اور غوروفکر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ بھی مانا جاتا ہے کہ وہ اس زبان میں تصورات کی پختہ اور بہتر تفہیم کے بھی اہل ہیں۔تدریسی عمل، جو ان کی اپنی زبان اور ثقافت کے تناظر میں انجام دیا گیا ہے اس کے لیے ضروری اعتمادکوفروغ دیتا ہے۔

تعلیم کے سلسلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زبان صرف ‘ اظہار’ اور’ تعلیم یافتہ’ ہونے کے ایک وسیلے سے زیادہ ہوتی ہے۔یہ نہ صرف دنیا اور افکار کو سمجھنے کا ذریعہ ہے بلکہ ہر انسان کی شناخت، وقار اور شخصیت کی تشکیل کا ایک وسیلہ بھی ہے۔اس فکر کو ہرسطح کی زبان کی تدریس کے مقاصد، تدریس کے طریقہئ کار، بچوں اور اساتذہ کے رول، درجہ کی تشکیل اور دیگر مضامین کی تعلیم میں زبان کے کردار سے متعلق سوالات کے بارے میں بروئے کارلانا ضروری ہے۔
‘قومی درسیات کا خاکہ (این سی ایف)2005 ‘ اور ‘ہندوستانی زبانوں کی تدریس’ پر پوزیشن پیپرزبان اور زبان کی تدریس کے بارے میں ایک ہی نقطہئ نظر رکھتے ہیں۔ان ہی بنیادوں پر زبان کے تدریسی کورس، طرقِ تدریس، درسی کتب اور متعلقہ کتب کو تیارکرنااور ان کی درجے میں جگہ، اساتذہ کی تیاری، اندازہئ قدر کے طریقے وغیرہ کی تشکیل ہوئی ہے۔ہندوستان کے کثیر لسانی منظر نامے میں جمہوری شمولیاتی تعلیم کے لیے زبان، ثقافت اور معاشرے کی تعلیم کے باہمی تعلقات خاص اہمیت رکھتے ہیں جن کو گہرائی کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے۔یہ سیمینار اس سمت میں پیش رفت کی ایک کوشش ہے۔

اس بحث کے دوران باہمی رشتوں کے نئے پہلوؤں کو ابھارنے کے لیے لازمی ہے کہ ان کے سلسلے میں نئی نئی کوششیں کی جائیں اور ان کے مطالعے، تجزیے اور اس سے حاصل شدہ نتائج اخذ کرکے اس تفہیم کو مزید آگے بڑھایا جائے۔گزشتہ تین چاردہائیوں میں زبان کی تدریس کے حوالے سے بہت سی نئی کاوشیں اور تجربات کیے گئے ہیں۔ ایک طرف یہ کوششیں نظریاتی سطح پر کی گئی ہیں اور دوسری طرف اسکولوں،کمرہئ جماعت اور ان کے وسائل کے ساتھ بہت ساری چھوٹی بڑی کوششیں کی گئیں ہیں۔اس سیمینار میں ہم ان سب پر تبادلہئ خیال کرنا چاہتے ہیں۔

پرائمری درجات میں زبان کی تعلیم

اسکول میں ہم لکھنا پڑھنا سیکھتے ہیں۔ عام بول چال کی زبان تو بچے گھریلو اور معاشرتی زندگی گزارتے ہوئے بھی سیکھ لیتے ہیں، لیکن پڑھنا لکھنا سیکھنے کے لیے منظم کوششیں اور اسکول جیسے ادارے کی ضرورت ہوتی ہے۔اسکول کی تعلیم، بالخصوص پرائمری تعلیم کے بارے میں یہ عام تصور ہے۔ تعلیم یافتہ فرد کو عام زبان میں ‘ پڑھا لکھا’ شخص کہا جاتا ہے۔تحریری زبان کو پڑھ پانے اور اپنے خیالات کو لکھ کر ظاہرکرپانے کی بنیادی صلاحیتوں کی بناپر عام لوگ کسی کو پڑھا لکھا یا ‘ تعلیم یافتہ’ مانتے ہیں۔ان توقعات کے علاوہ تعلیم یافتہ شخص سے کچھ اخلاقی اور فکری توقعات وابستہ ہیں لیکن پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کو بغیر کسی اختلاف کے تقریباً تمام لوگ پڑھے لکھے شخص کی بنیادی قابلیت سمجھتے ہیں۔ظاہر ہے، جب اسکولی نظام بڑی تعداد میں اپنے طلبا میں یہ بنیادی صلاحیتیں فروغ دینے میں ناکام رہتا ہے تو پھر اس نظام کی معتبریت خطرے میں پڑجاتی ہے۔اس وقت ہمارا اسکولی نظام کچھ اس طرح کے بحران سے گزر رہا ہے۔ سال بہ سال سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں اپنی تشخیصی رپورٹ جاری کررہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ پانچویں جماعت کے طلبا میں ‘ پڑھنے لکھنے’ کی جتنی صلاحیت پیداہونی چاہیے طلبا کی ایک بڑی تعداد اس صلاحیت کے حصول میں ناکام ہے۔پالیسی سازوں کے مابین سیکھنے کے جس بحران کا ذکر ہے، اس کا ایک سرااسکولی نظام کی اس ناکامی سے وابستہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے اس بحران کی نشاندہی کی جارہی ہے لیکن اس کو سمجھنے کے لیے منظم کوشش نہیں کی جارہی ہے۔سمجھ کا عالم یہ ہے کہ پڑھنا لکھنا سیکھنے او رسکھانے کی ایک میکانِکی سمجھ ہماری جبلتوں میں موجود ہے۔ اسے عام طورپر ایک تکنیکی مسئلے کے طورپر دیکھاجاتا ہے اور تکنیکی طورپر ہی اس کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی پیچیدہ سطح کی تکنیکی چیلنج پیش کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔ اس سے لوگوں میں یہ احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ پڑھنا لکھنا سکھا ناکوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ کوئی بھی پڑھا لکھافرد کسی بھی ناخواندہ شخص کو خواندہ بناسکتاہے۔جب ہم اس طرح کے تکنیکی حل مہیاکرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں، تب جھنجلاہٹ اور بڑھ جاتی ہے۔

سطحی طورپر بھلے ہی ہمیں یہ مسئلہ محض ایک تکنیکی مسئلے کے طورپر دکھائی دیتا ہے لیکن اس مسئلے کا ایک سماجی وثقافتی پہلو بھی ہے۔ گزشتہ بیس تیس برسوں میں سرکاری کاوشوں سے مختلف معاشرتی، ثقافتی اور لسانی پس منظر کے طلبا اسکولی تعلیمی نظام سے وابستہ رہے ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے۔ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد اسکولی نظام سے وابستہ ہے جو اپنے خاندان کے پہلے فردہیں جو تعلیم یافتہ بننے کی سمت قدم اٹھا رہے ہیں۔اسکول کے درجات پہلے کی بنسبت کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی ہوچکے ہیں۔ آج لسانی تکثیریت صرف نظریاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ ہمارے بیشتر اسکولوں کے کمرہئ جماعت کی حقیقت بھی ہے۔ایسی صوتِ حال میں اساتذہ لسانی تکثیریت کو وسیلے کے طورپریا ایک چیلنج کے طورپر دیکھ سکتے ہیں لیکن لسانی تکثیریت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پڑھنا لکھنا سکھا نے کے عمل کو مؤثربناتا ہے تو اس عمل میں آموزگار کی فعال شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ اگر کمرہئ جماعت میں مکالمہ یک طرفہ نہیں کرنا ہے تو ہمیں کمرہئ جماعت میں زبانوں کے تنوع کو بخوشی قبول کرنا پڑے گا۔مختلف ثقافتی پس منظر سے آنے والے طلبا وطالبات سیکھنے کے مختلف طریقوں کے ساتھ کمرہئ جماعت میں آتے ہیں۔کیا اسکولی نظام کی ایسی تیاری ہے کہ وہ اس تنوع کو اپنے سیکھنے سکھانے کے عمل میں شامل کرکے اس عمل کو با مقصد بنا سکے۔ عام طورپر جب پالیسی کی سطح پر طلبا وطالبات میں پرھنے لکھنے کی متوقع صلاحیت حاصل نہ کرپانے کی بات ہوتی ہے تو ان سوالات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

زبان کی درس و تدریس کے نقطہئ نظر سے یہ سوالات اہم ہیں۔ یہ سیمینارزبان کی تدریس سے متعلق اہم امورکووسیع تر تناظرمیں غورکرنے کی ضرورت کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے۔

اعلیٰ پرائمری اور ثانوی جماعتوں میں زبان وادب کی تعلیم

زبان کی تدریس کا مسئلہ اسکول کی تعلیم کی ہر سطح اور متعدد پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے۔ مثال کے طورپر، اگر پرائمری درجات میں ہماری زبان کی تدریس اپنے مقاصد کی تکمیل کے لائق ہو اور طلبا وطالبات پرائمری درجات سے نکل کر خود بخودپڑھنا لکھنا سیکھ لیتے ہیں، تو پھر یہاں پرائمری اور ثانوی سطح پر علاحدہ طورپر زبان کی کلاس کی ضرورت کیوں ہے؟ فرض کیجیے کہ طالب علم کی گھر کی زبان اردو یا ہندی ہے اور اس نے آسانی سے اپنے سماج میں رہتے ہوئے یہ زبان سیکھ لی ہے، اسکو ل آنے کے بعد اس نے پرائمری درجات میں ان زبانوں میں آزادانہ طورپر لکھنا اور پڑھنا بھی سیکھ لیا ہے تو اس کے بعد اس کو اعلیٰ پرائمری اور ثانوی سطح پر اردو یا ہندی کیوں پڑھنا چاہیے؟ اب مزید وہ ان زبانوں میں اسکول میں کون سی مہارت حاصل کرے گا جو وہ عام زندگی میں ان زبانوں کو استعمال کرتے ہوئے حاصل نہیں کرسکتا؟ تعلیمی عمل، درسی کتاب لکھنے سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ تعلیم اور زبان کے اساتذہ کے پاس ان سوالات کے واضح جوابات ہونے چاہئیں۔

اگر چہ زبان کی تعلیم میں ادب کا استعمال پرائمری درجات سے ہی کیا جانا چاہیے لیکن اکثر وبیشتر ہم دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ پرائمری اور ثانوی درجات میں طلبا وطالبات کو اردواور ہندی ادب کے ممتازمصنفین کی تصانیف سے متعارف کرانے کی بھر پورکوشش کی جاتی ہے۔درسی کتب میں مختلف اصناف کی تحریریں شامل ہوتی ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھاکر ہم کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم انھیں پڑھاکر طلبا وطالبات میں زبان کی کچھ مہارتوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا کسی خاص ثقافتی ورثے سے ان کومتعارف کروانا چاہتے ہیں یا پھر ہم ان کی جذباتی، علمی، اور جمالیاتی فہم اور صلاحیتوں کو فروغ دینے کے مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر یہ تینوں محرکات ادب کی تعلیم کے پیچھے شامل ہیں تو ہماری تعلیم، درسی کتب اور تعلیمی سرگرمیوں میں کب کون سا مقصد زیادہ اثر دار ہوکر ہمارے تعلیمی عمل کی زیادہ رہنمائی کرتا ہے اسے سمجھنا زبان و ادب کے نقطہئ سے اہم ہے۔ زبان و ادب کی تدریس سے ایک اور سوال وابستہ ہے کہ کیااردوہندی کے ادب کی تاریخ میں جو تصنیفات معیار بن چکی ہیں وہ اس زبان کو بولنے والی قوم کے سبھی طبقات کی نمائندگی کرتی ہیں۔تعلیم کے آفاقی ہونے کے بعد آج اسکول کے کمرہئ جماعت میں پائے جانے والے تنوع کے تناظر میں اس سوال پر غورکیا جانا چاہیے۔

 

سیمینارمیں شرکت کا لائحہ عمل

ہم چاہتے ہیں کہ اس سیمینار میں طرح طرح کے علمی اور تحقیقی مقالے آئیں اور مختلف پس منظر کے لوگ اس سیمینار کے لیے تحقیقی مقالے لکھیں اور پیش کریں۔ سیمینار میں پیش کرنے کے لیے مقالے ایسی تحقیقات پر مبنی ہوں جو سیمینارکے موضوعات سے متعلق ہوں۔مقالہ آپ کی تدریس، اساتذہ کے ساتھ آپ کے باہمی تعامل، آپ کے تعلیمی وتربیتی تجربات اور اس طرح کے دوسرے تجربات پر مبنی ہوسکتا ہے۔ توقع یہ ہے کہ یہ مقالہ محض آپ کی رائے یا فہم کا اظہار نہ ہو بلکہ اپنے خیالات کو منطقی بنیاددینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا مقالہ متعلقہ تحقیقی ادب کے تحلیل و تجزیہ اور آپ کے پختہ تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہو۔اگر آپ محقق ہیں اور زبان کی تعلیم کے شعبے میں آپ نے تحقیق کی ہے، تو ہم آپ سے ایک ایسے منظم اور وقیع مقالے کی توقع کرتے ہیں۔مقالہ ایک منظم انداز میں پیش کیا جانا چاہیے اور حوالہ جات کی فہرست میں ہر ایک کے بارے میں تفصیلات ہونی چاہئیں۔

مذکورہ بالاتناظر کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے درج ذیل موضوعات کی نشاندہی کی ہے جن پر آپ اپنا علمی اور تحقیقی مقالہ ارسال کرسکتے ہیں۔

1۔پرائمری درجات میں زبان کی تدریس

٭ زبان کی تدریس کا آغاز: خواندگی، تفہیم اور لسانی اظہار کا وسیع ہوتا دائرہ
٭ ابتدائی سطح پر زبان کی تدریس میں شمولیت کے مسائل
٭ زبان کی تدریس اور ابتدائی ادبی اظہار
٭ پرائمری درجات میں زبان کی تدریس کے لیے مناسب مواد اور سرگرمیوں کا انتخاب اور تخلیق
٭ درجات میں زبان کی تدریس اور لسانی تکثیریت
٭ بریل رسم الخط اور اشارے کی زبان
٭ ‘لسانی معذوریت’ اور’ لسانی مہارت ‘جیسی اصطلاحات کا تنقیدی تجزیہ

2۔اعلیٰ پرائمری اور ثانوی درجات میں زبان کی تدریس

٭ اعلیٰ ابتدائی اور ثانوی سطح پر اردو زبان کی تدریس کے لیے نصاب تشکیل دینے میں درپیش چیلنج
٭ ادبی اصناف کی تدریس
٭ علمی اور تخلیقی تحریروں کی صلاحیتوں کا فروغ
٭ ادبی اور علمی اسباق پڑھنے کی تیاری

3۔نصاب کے سبھی شعبوں میں تعلیمی کامیابی کے لیے زبان کی تدریس

٭ زبان، علمی حصول یابی اور غوروخوض
٭ زبان اور تخلیقی اظہار
٭ اردو زبان میں بچوں کا ادب
٭ اردو زبان میں سائنس کی تدریس
٭ ہندی اور اردو زبان میں سماجی علوم کی تدریس
٭ لسانی اہلیت اورریاضی کا علم

4۔زبان وادب کی تدریس

٭ معیاری زبان، قومی زبان، رابطے کی زبان
٭ زبان، رسم الخط اورتحریری مواصلات
٭ تدریس کے وسیلے کے طورپر اردواور ہندی کی ہیئت اور ساخت پر بحث
٭ اسکول کے نصاب میں اردو اور ہندی ادب: ثقافتی معیار، اسباق کا انتخاب اور مقبول تدریسی طرقِ تدریس
٭ اردو اور ہندی ادب کی تعلیم کے وسیع تر مقاصد
٭ قرون وسطیٰ کا لسانی منظر نامہ اورزبان کی تدریس
٭ جدید اردو اور ہندی ادب کی تدریس: درس وتدریس کے وسیع مقاصد اور موجودہ طرقِ تدریس و تدریسی حکمتِ عملیاں
٭ اساتذہ کی تعلیم میں زبان کی تدریس سے متعلق مسائل
٭ اساتذہ کی تعلیم میں زبان اور علم کی تشکیل سے متعلق مسائل

سیمینار میں شریک ہونے کے لیے آپ کو اپنے مجوزہ تحقیقی مقالے کی تلخیص بھیجنا ہوگی۔

یہاں تلخیص کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنے مقالے کے کلیدی نکات، مشاہدے اور دلیل کی تصدیق کرنے یا اپنے نقطہئ نظر کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے کو ن سا ادب اور تحقیقی طریقہ استعمال کریں گے۔ اور آپ ان سب کی مدد سے کیا ثابت کرناچاہتے ہیں۔

یہ سیمینار اردو اور ہندی میں ہورہا ہے۔ یعنی اس کے لیے لکھے گئے سبھی علمی اور تحقیقی مقالے اِن دونوں زبانوں میں کسی ایک زبان میں ہوسکتے ہیں۔ سیمینارمیں ان کی پیش کش اور گفتگو بھی متعلقہ زبان میں ہی کی جائے گی۔

٭ آپ اپنے مجوزہ مقالے کی تلخیص 20 / جنوری2020 تک بھیج سکتے ہیں۔تلخیص 500 سے 800 الفاظ تک ہو سکتی ہے۔
٭ آپ کو جس زبان میں مقالہ پیش کرنا ہو، اسی زبان میں تلخیص تحریر کرکے ارسال کریں۔
٭ آپ سے گزارش ہے کہ تلخیص کے اختتام پر اپنا مختصر تعارف، ای میل، پتہ اور فون نمبرضرور تحریر کریں۔
٭ تلخیص Inpage پی ڈی ایف یا  MS Word میں متعلقہ زبان میں ہی بذریعہ ای میل ارسال کریں۔  

 ٭ سیمینارمیں اردو میں پیش کیے جانے والے مقالے کی تلخیص اس ای میل پر بھیجیں :
[email protected]

 ٭ سیمینارمیں ہندی میں پیش کیے جانے والے مقالے کی تلخیص اس ای میل پر بھیجیں  : [email protected]

٭ مقالے کی تلخیص موصول ہونے پر سیمینار کی اکیڈمک کمیٹی اس پر تبادلہئ خیال کرنے کے بعد آپ کو مطلع کرے گی۔منظوری ملنے کے بعد آپ مقالہ لکھنا شروع کرسکتے ہیں۔پورامقالہ مع حوالہ جات مذکورہ بالا ای میل ایڈریس پر ارسال کیا جانا چاہیے۔

 

سیمینار کی تاریخ                                              اکتوبر20209 ، 10 ، 11
مقام                                                        جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی – 110025
تلخیص ارسال کرنے کے آخری تاریخ                      20جنوری، 2020
پورامقالہ جمع کرانے کی آخری تاریخ                        31مئی، 2020

نوٹ: سیمینار سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے آپ دیے گئے ای میل پتوں پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے