سلگتے سوالات سے چراغ جلائیں – حصہ اول

موجودہ دورمیں سائنس اورریاضی کی تعلیمی صورتحال نہایت ہی دگرگوں ہے،بطورخاص پرائمری سےہائی اسکول تک۔ جسکی ایک اہم وجہ،غیردلچسپ اندازِتعلیم ہے۔ نتیجتاً کئی ایک طلباءاس میدان سےدورہوگئے،اورکچھ دوسرےطلباء،ڈگری مکمل کرنےسےپہلےہی،ظاہری کشش والےجاب مثلاًکال سنٹر،کی طرف مائل ہوگئے۔ حدتو یہ ہےکہ جوطلباءسائنس کی تعلیم حاصل کرسکتےہیں وہ بھی اکثروبیشترخشک وبےلطف طرزتعلیم یامتبادل روزگارکی چمک سےمتاثرہوکرمیدان بدل جاتےہیں۔ان وجوہات نےسائنٹفک اورتجدیدی ریسرچ کےمیدانوںسےطلبائی ’خروج‘کی حالت پیداکردی ہے۔ آخرہمارےسائنس اورحساب کی تعلیم میں کیاخرابی ہے؟کیایہ ممکن ہےکہ،ریاضی اورسائنس کی مضبوط بنیادوں کےبغیر،سائنس وٹکنالوجی میں قابل قدرتجدیدی کام انجام دیاجاسکتاہے؟ہم آخرکس طرح نوخیزذہنوںکو،سائنس وٹکنالوجی کی ایجادی واکتشافی قوت کےمتعلق پُرجوش وشوقین رکھ سکتےہیں؟درحقیقت یہ بہت ہی گمبھیراورپیچیدہ سوالات ہیں جن کےجواب بھی آسان نہیں ہیں۔ ان سوالات کےحل کاایک طریقہ یہ ہوسکتاہےکہ ہم اس نکتہ کوتلاشیں کہ آخروہ کیاچیزتھی جس نےسائنسدانوںکوعظیم اکتشافات اورریسرچ پراُبھارا۔اورپھرسوچیں کہ کس طرح ان عوامل کوہم اپنےنصاب کاحصہ بنائیں تاکہ بالکل ابتدائی دورسےطلباءکےاندرسائنس کےمضامین سےدلچسپی پیداہوسکے۔

بہت سے مشہور و معززسائنسدانوں نے ، تحقیق و ایجادات کیلئے درکارشوق و جذبہ کو اکثر ، حیرت انگیز سوالات سے حاصل کیاہے۔ اور پھر جنکے جوابات پانے تک انہوں نے چین کی سانس نہیں لی۔ یہاں تک کہ انکا شوق ، جنون کی شکل اختیار کر گیا۔ اس سے ہم ’غائب دماغ‘ پروفیسر کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دراصل کسی ’غائب دماغ‘ پروفیسر کا دماغ کہیں ’غائب‘ نہی ہوتابلکہ پروفیسر صاحب کی ساری توجہ اور ذہنی توانائی، اُس سوال اور اُس انجان کو جاننے کی جستجو پراس قدر مرکوز ہوتی ہے کہ پروفیسر محترم اپنے محسوس گردوپیش سے بھی بے خبرہو جاتے ہیں۔سائنس و تحقیق ایک حیثیت میں جنون کا نام ہے۔یہ ایک جہدِ مسلسل ہے، غیر معلوم کا جواب تلاشنے کی اور یہاں جواب کی تکمیل تک جنون جاری و طاری رہتا ہے۔ جب تک ہم اپنے طلباء کو ایسے جنون کی حد تک جذبۂ شوق وجستجو کا حامل نہ بنا دیں، شائد ہم کئی ایک بہترین تخلیقی ذہنوں کو کھوتے رہیں گے۔ نوبل انعام یافتہ، رچرڈ فین مین ، البرٹ آئین سٹائین ، سی وی رمن ، ایس راج شیکھرن اور کئی دوسروں کے اندریہی تجسس، قدرت کی خوبصورت کاریگری کو سمجھنے کیلئے سوال بن کر جاگا کہ ، کائنات میں چیزیں جیسی ہیں ویسی کیوں ہیں؟ آئن سٹائن کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے کہا ‘ تخیل علم سے ذیادہ اہم چیز ہے’ ۔ اگر رامن نے سوال نہ پوچھا ہوتا کہ، آخر کیوں آسمان اور سمندر کارنگ یکساں ہوتا ہے؟ توشاید ہم نوبل پرائز پانے والے رامن اثر اور رامن سپیکٹروسکوپی کے بارے میں نہیں جان پاتے۔اسی طرح جب آئن سٹائن نے اپنے استاد سے پوچھاکہ کیوں، جنہوں نے بتایاتھا کہ حرکت کرنے والی ٹرین اور ساکن ٹرین سے نکلنے والی روشنی کی قوتِ رفتار الگ الگ ہوتی ہے۔ اسی کے اطمنان بخش جواب کی تلاش ، نظریۂ خلا و وقت کے دریافت کا باعث بنی۔کائنات کی دلکشی کو سمجھنے کی یہی قوتِ تخلب ہے، جوسائنسی اکتشافات کا با عث بنتی ہے۔ اسی لئے طلباء کے اندر قوتِ تلاش اورنا معلوم جواب کے حصول کی جستجوپیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔
وہ کیا چیز ہے کہ جو طلباء کو سائنس اور ریسرچ کا شوق دلاتی ہے، اسکاجواب تلاش کرنے کیلئے میں نے خود سے یہ سوال کیا۔ میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے کچھ دلچسپ ذاتی تجربات اور تمثیلات کو بیان کروں کہ جنہوں نے مجھے سائنس کی جانب مائل کیا۔ میری سب سے پہلی پہل سائنسی امنگ ایک سائنس میلہ کی وجہ سے جاگی، جسے میری بہن اور انکی دوستوں نے پچئیپاّ کالج ، چنئی میں منعقد کیا تھا۔ میں اس وقت 13 سال کا تھا جب اس ایگزیبشن کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک تاریک کمرہ میں ایک شخص دو کیمیائی سیال کو ملاتا ہے اور یکایک سارا کمرہ نیلی روشنی سے جگمگا اٹھتا ہے۔ فوراً اگلے ہی لمحے میں اس چیز کی کھوج میں مشغول ہو گیاکہ کیونکر، ان کیمکلس کے تعامل سے خوبصورت نیلی روشنی پیدا ہوئی؟ ایک اور موقع پر ، جب میں 14 سال کا تھا، میں نے دیکھا کہ میری ماں نے  ہلدی کو پانی میں گھول کر سفید چونا کے ساتھ ملایا۔ میں حیران رہ گیا کہ پیلے رنگ کا محلول گہرے سرخ رنگ میں بدل گیا۔ اسی طر ح کئی ہندو رسوم کے مواقع پر آرتی کیلئے ہلدی کو چوناکی طرح مادہ جو کہ کیلشیم ہائیڈروآکسائڈ سے بھر پور ہوتا ہے ، ملایا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہلدی کا پیلا رنگ سرخ میں تبدیل ہو جاتا ہے؟ اس سوال نے ابتدائی دور میں میرے اندر سائنس کے تئیں دلچسپی پیدا کی۔ اس شوق نے مجھے قدرت کی خوبصورت نئی راہوں کی جستجو پر راغب کیا۔[۔۔۔]گرچہ اس مذکورہ سوال نے مجھے سائنسی راہوں پر آگے بڑھایا جو کہ کوانٹم میکانکس اور سپیکٹروسکوپی پر منتج ہوا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ یہی سوال تھا کی جس نے میرے اندر علم ، ایجاد اورریسرچ کی ایک نہ ختم ہونے والی جستجو پیدا کی۔ جب میں تجزیہ کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ جواب کی بہ نسبت سوال ز یادہ اہمیت کا حامل تھا۔ وہ سوال اور سیر نہ ہونے والا جذبۂجستجوتھا،جسےحصولِ جواب کاجنون بھی کہاجاسکتاہے،کہ جس نےمجھےسائنس اورریسرچ کی جانب راغب کیا۔ایجادواکتشاف کی راہ میں بنیادی سوالات کااٹھانا،چاہےکتنےہی معمولی یاپیچیدہ کیوں نہ ہوں، نہایت ناگزیر ہے۔

ایک دن میری ماں ’ میسور پاک ‘ بنا رہی تھیں،تو کسی دوسرے دن رس گلہ۔ میں نے دیکھا کہ جب وہ دودھ میں لیموں کا رس ملاتی ہیں تو دودھ ٹھوس حالت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آخر کیو نکر ، لیمو کے رس کو ملاتے ہی دودھ د و الگ الگ مادہ کی حالتوں : مائع سے ٹھوس میں بدل جاتا ہے۔ یہاں پر بھی سوال کا پوچھنا ہی میرے سائنسی تجسس کا ذریعہ بنا۔ کیا لیمو میں موجود تیزاب( ایسڈ )ہے جو اس کا باعث بنا یا پھر کوئی دوسری چیز تھی جو اس کی وجہ بنی؟ بالآخر دودھ کی واقعی حالتِ مادہ کیا ہے؟ اس قسم کے سوالات ہمیں ہائڈروجن بندھن اور پروٹین کی ساخت کی دریافت کی جانب لے جاتے ہیں قطعہ نظر اس سے کہ جوابات واضح ہوں یا نہ ہوں۔ اسی طرح میں پوچھا کرتا تھا: ’کیونکر اکژ اشیاء حرارت پانے پر ٹھوس سے مائع میں تبدیل ہوجاتے ہیں، لیکن انڈا کا سیال ابالنے پر مائع سے ٹھوس میں بدل جاتا ہے؟‘ پھر سے جواب، کہ یہ ہائڈروجن بندھنوں کے ٹوٹنے سے واقع ہونے والی مادہ کی خصوصیات میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے، سوال سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ بنیادی سوال ہے کہ کس چیزنے مجھے سائنس کی جانب مائل اور اسکے ساتھ مشغول کیا؟ عموماًکئی ساری مٹھائیوں کی تیاری کے دوران ٹھوس شکر کو پانی کے ساتھ ملا کر گرم کیا جاتا ہے تاکہ محلول کو مٹھائی کی قسم کے مطابق مختلف حالتوں میں بدلا جا سکے۔ اگر کوئی ان مشاہدات اور ما دہ کے ہمہ اقسام حالتوں کی بنیاد پر سوالات پوچھے تو وہ مادہ کی حالتوں اور جدولِ مراحل کی دنیا میں سیر کریگا! ہمارے اطراف میں بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جسے ہم بس یوں ہی قبول یا نظر انداز کر دیتے ہیں اور کبھی ٹھہر کر سوچنے اور غور کرنے کا موقع نہیں پاتے۔

متذکرہ بالا مضمون کا دوسرا حصہ ملاحظہ ہو

مصنف: کرشنن بالا سبرمنین
ترجمہ: صداقت فقیہ ملا

بشکریہ لرننگ کروسائنس اشو12،عظیم پریمجی فائونڈیشن، بنگلورو
(Learning Curve Issue 12, April 2009)

Author: Admin

1 thought on “سلگتے سوالات سے چراغ جلائیں – حصہ اول

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے