عملی تحقیق:کیا کیوں اور کیسے؟

درس و تدریس کو عام طور پر ایک نہایت آسان عمل تصوّر کیا جاتا ہے، جس میں طلباء کے آگے کسی تدریسی موضوع کو پیش کیا جاتا ہے، جسے طلباء کو سیکھنا ہوتا ہے اور بعد میں اسکی جانچ کر لی جاتی ہے. لیکن تجربہ کار اساتذہ جانتے ہیں کہ درس و تدریس میں اور بھی بہت کچھ شامل ہوتا ہے. در حقیقت درس و تدریس مشکل نفسیاتی عوامل ہیں، جو بہت سے باہمی طور پر وابستہ عنصر پر منحصر کرتے ہیں. اساتذہ کے کام کا اصل مقصد طلباء کی آموزش (سیکھنا) کو آسان بنانا ہوتا ہے، جس کے لئے وہ مختلف قسم کی تدریسی ترکیبیں اور طریقہ کار کا استعمال کرتے ہیں، مختلف تدریسی امدادی اشیاء (ٹیچنگ ایڈز) کو کام میں لاتے ہیں، اور اپنے طلباء کی کارکردگی کی جانچ کرنے کے لئے مختلف اسائنمنٹس اور تشخیشی پرچے تیار کرتے ہیں. اس قسم کے روز مرّہ کے کام کرتے ہو ئے اساتذہ کو مختلف قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. منفرد اساتذہ کو کسی کمرہ جماعت کی ایک خاص صورتحال میں ان گنت تدریسی طریقہ کار میں سےکسی ایک طریقہ کار کو اختیار کرنے میں تعطل سا محسوس ہوتا ہے. کیونکہ درجہ کا بڑا یا چھوٹا ہونا، تدریس کا موضوع، اور طلبا کی معاشرتی بود و باش کی کیفیت (student demographics) ، اور اساتذہ کی ذاتی صلاحیتیں اور انداز تدریس جیسے عناصر تدریسی طریقہ کار کے انتخاب میں اہم رول ادا کرتے ہیں. اس طرح ہم دیکھتے ہیں کے صورتحال، وقت، جگہ اور طریقہ کار وغیرہ تدریسی کام کی ہیت کو اثر انداز کرتے ہیں. حالانکہ ایسی پریشانیوں سے دو چار اساتذہ اور کچھ نیا کرنے کی جستجو میں سرگرداں اساتذہ کے لئے ٹیچر ایجوکیشن کے ادارے، اسکول، اور درس و تدریس سے متعلق ادب بہت سے خدمات، جانکاریاں، اور پروگرام فراہم کرتے ہیں؛ لیکن کئی بار متعلقہ ادب، تحقیقی رپورٹ، اور دیگر تدریسی مضامین اساتذہ کو در پیش پریشانیوں کا کوئی فوری حل مہیا نہیں کرا پاتے ہیں. ایسی صورتحال میں اساتذہ عملی تحقیق/ایکشن ریسرچ کر کے اپنے در پیش مسائل کا حل نکال سکتے ہیں.

عملی تحقیق/ایکشن ریسرچ اساتذہ اور اسکول کے حکّام کو اس بات کی صاف طور پر نشاندہی کرنے میں مدد کرتی ہے کے طلبا کی آموزش کو بہتر بنانے میں کون سی تکنیکیں موثر ہیں اور کون نہیں.عملی تحقیق اساتذہ کیلئے وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ وہ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ان کے ذاتی کمرہ جماعت کی صورتحال میں کون سا طریقہ کار سب سے بہتر کام کریگا. اس کی مدد سے اساتذہ اپنے کمرہ جماعت میں فوری طور پر موجود آنکڑوں کا استعمال کرکے کمرہ جماعت سے متعلق حقیقی مسائل کا حل تلاشتے ہیں. عملی تحقیق کو انجام دینے کے متنوع طریقے ہیں جن پر کسی بھی شعبہ کے اساتذہ کو آسانی سے مہارت حاصل ہو جاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ تعلیمی حلقوں میں عملی تحقیق کو بڑی اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور بہت سے ٹیچر ایجوکیشن کے ادارے اساتذہ کو ایسے مواقع فراہم کرانے لگے ہیں کہ وہ ملازمت سے قبل اور ملازمت کے دوران عملی تحقیق کے پروجیکٹوں میں مشغول ہو سکیں. تعلیم کے میدان میں عملی تحقیق کا پروجیکٹ کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ عملی تحقیق کیا ہے؟اس سے قبل کہ ہم عملی تحقیق کی تفصیلی وضاحت کریںہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تحقیق کیا ہے؟ اور تعلیمی تحقیق کیا ہے؟

تحقیق (Research) کیا ہے؟

انسانوں میں اپنے ارد گرد موجود حیاتیاتی، مادّی اور سماجی دنیا سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کا اشتیاق ہمیشہ سے موجود رہا ہے. انسانوں کی اس متجسّس فطرت نے اس دنیا کے حیاتیاتی، مادّی اور سماجی پہلوؤں سے متعلق بہت سی معلومات اکٹھا کرنے میں مدد کی ہے. زمانہ قدیم سے اب تک انسانوں نے اپنے اطراف کی دنیا کو سمجھنے کے لئے متنوع طریقے استعمال کئے ہیں. روایت (tradition) اور ذاتی تجربات (personal experiences) زمانہ قدیم میں کسی چیز سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے واحد طریقے تھے. بعد میں الہامی علم یا (revealed knowledge) جیسا کہ مذہبی کتابوں کی شکل میں موجود تھا— اور ماہرین کے مشورے (advice expert) جانکاری حاصل کرنے کے رائج طریقے بن گئے. وقت گزرنے کے ساتھ ارسطو کی تجویز کردہ استخراجی منطق(deductive logic) جس میں عمومی بیانات سے خصوصی واقعات کے بارے میں منطقی نتیجہ اخذ کرتے ہیں— جانکاری حاصل کرنے کے طریقے کے طور پر مشہور ہوا. بعد از ایں فرانسس بیکن کی وکالت کردہ استقرائی منطق (inductive logic) جس میں خصوصی واقعات کے مشاہدے سے عمومی نتائج اخذ کرتے ہیں— اور چارلس ڈارون کا عام کردہ استقرائ استخراجیی طریقہ (inductive-deductive method) سوچنے اور جانکاری حاصل کرنے کے معقول طریقے بن گئے. سوچنے اور جانکاری حاصل کرنے کا یہی طریقہ آگے چل کر سائنسی طریقہ کار کی بنیاد بن گیا. اس طرح سائنس علم حاصل کرنے کے ایک طریقہ کار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا. جان ڈیوی جیسے فلسفیوں نے یہ وکالت کی کہ مادّی اور قدرتی دنیا کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے کے لئے ایسا طریقہ استعمال کرنا چاہیے جو سائنسی طریقہ کار پر مبنی ہو.

اس طرح سائنسی تحقیقی عمل (process of scientific inquiry) کو پہلے پہل مادّی سائنس (physical science) کے طریقے کے طور پر استعمال کیا گیا اور بعد میں اسکو انسانی طرز عمل سے متعلق سائنسوں (behavioural sciences) میں بھی دھڑلے کے ساتھ استعمال کیا جانے لگا. جانکاری/علم حاصل کرنے کے دوسرے طریقوں کے مقابلے میں سائنسی تحقیق کا طریقہ(scientific inquiry approach) سب سے زیادہ غیر جانبدار (unbiased) اور قابل تصدیق/توثیق (verifiable) سمجھ مہیا کراتا ہے. سائنسی اور باضابطہ تحقیق کے اسی طریقہ کار کا قدرتی اور سماجی مسائل اور تنازعات کے مطالعہ میں اطلاق تحقیق یا ریسرچ کہلاتا ہے. دوسرے الفاظ میں، کسی مسءلہ کا حل (خصوصا جب حل معلوم نہ ہو ) تلاش کرنے کے باضابطہ عمل کو تحقیق یا ریسرچ کہتے ہیں.

تحقیق/ریسرچ کی توضیح کئی طریقوں سے کی جا سکتی ہے. ڈین(٢٠١١) کے مطابق، ریسرچ/تحقیق کو اسکی توضیحات(definitions) میں نہیں باندھا جا سکتا، یہ اس سے کہیں زیادہ ہے؛ اگر آسان الفاظ میں کہیں تو ریسرچ وہ معترضانہ/تنقیصی (critical) عمل ہے جسکے تحت اس کائنات سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں اور انکے جوابات دینے کی کوشش کی جاتی ہے“. بیسٹ اور کاہن(٢٠٠٦ء) کے مطابق،تحقیق ایک ایسا عمل ہے جسکے تحت معیاربند مشاہدات (observations controlled) کو منضبط/قلمبند (record) کرکے انکا باضابطہ(systematic) اور معروضی(جو خارجی اشیاء پر نظر رکھے نہ کہ ذاتی جذبہ و احساس کو حقائق پر غالب آنے دے—objective) طور پر تجزیہ(analysis) کیا جاتا ہے. نتیجہ کے طور پر تعمیمات (generalisations- چند مثالوں سے نتیجہ اخذ کرنا) ،بنیادی کلیات (principles)، اور نظریات (theories) وجود میں آ سکتے ہیں جو واقعات (events) کی پیشن گوئی (prediction) اور ان پر ممکنہ اختیار کو یقینی بنائیں“. یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی مسلہ یا واقعہ سے متعلق معلومات حاصل کرکے انکا تجزیہ کرکے ان سے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے تاکہ اس مسلہ یا واقعہ سے متعلق سوالات کا جواب دیا جا سکے. حتاالامکان تحقیقی عمل کو معیار بند(controlled) ،سخت گیر(rigorous)، باضابطہ(systematic)، قابل تصدیق/توثیق(verifiable)،اختباری/تجربی(empirical)، اور معترضانہ/تنقیصی (critical) ہونا چاہیے. لیکن جیسا کہ کرلنگر(١٩٧٣) نے کہا ہے،، تحقیق ہمیشہ باضابطہ(systematic) اور معیار بند(controlled) نہیں ہوتی؛ یہ جتنی زیادہ باضابطہ اور معیاربند ہو، اتنی بہتر ہوتی ہے مگر بےضابطہ اور غیر معیاربند تحقیق بھی تحقیق ہے“.

تحقیق کا اولین مقصد مناسب مدوں، سوالات، اور افعال کی وضاحت کرنا یا ان کو سمجھنے میں مدد کرنا ہے. کسی چیز کی سمجھ بنانے میں دوسروں کی مدد کرنا، آئندہ نتائج کی پیشن گوئی کرنا،مستقبل میں ہونے والے تحقیق اور فعل کو بہتر بنانا، اورگزشتہ تحقیق سے متعلق نیے سوالات کھڑے کرنا تحقیق کے ثانوی مقاصد ہیں. تحقیق کا حتمی مقصد ہے، پوچھے گئے تحقیقی سوالات کا جواب مہیا کروانا. ڈین (٢٠١١) کے مطابق، ایک ہی تحقیقی سوال کو پوچھنے کے کئی طریقے ہیں — تفتیش(exploration) ، توضیح (description) ، پیشن گوئی(prediction) ، تشریح (explanation)، اور عملی کارروائی (action). ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی واحد تحقیقی مطالعہ تحقیقی سوالات کا کوئی حتمی جواب مہیہ کرا دے؛ بلکہ بہت سارے تحقیقی مطالعات سے حاصل کردہ معلومات کی بناء پر موجودہ سمجھ بنتی ہے اور آئندہ ترقی ہوتی ہے.

تعلیمی تحقیق (Educational Research) کیا ہے؟

بعض تحقیقات کی طرح تعلیمی تحقیق میں بھی (کسی تعلیمی مسئلے سے متعلق) سوالات پوچھے جاتے ہیں، آنکڑے اکٹھے کئے جاتے ہیں، اور پوچھے گئے سوالات کے جوابات فراہم کرنے کیلئے جمع کئے گئے آنکڑوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے. تعلیمی فعل سے متعلق مدوں اورمسائل کی تفتیش،توضیح، یا تشریح کرنے؛ یا کسی تعلیمی فعل سے متعلق پیشن گوئی کرنے؛ یا کسی تعلیمی مسئلے کو حل کرنے کے لئے کی جانے والی تحقیق کو تعلیمی تحقیق کہتے ہیں. تعلیمی تحقیق سے حاصل کردہ معلومات سے تعلیمی اہلکاروں اور اساتذہ کو تعلیمی مسائل کی بہتر سمجھ ہو جاتی ہے؛ انہیں تعلیمی افعال کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے؛ اور تعلیمی پالیسی سے متعلق زیر بحث مدوں کو سمجھنے اور انکے تئیں اپنا ذاتی نظریہ طے کرنے میں بھی مدد ملتی ہے. بیسٹ اور کاہن(٢٠٠٦ء) کے مطابق،تعلیمی تحقیق کے تحت تعلیمی ماحول میں اساتذہ اور طلباء کے برتاؤ سے متعلق نظریات کو جنم دیا جاتا ہے اور ان کی جانچ کی جاتی ہے“.

تعلیمی تحقیق (اور بعض تحقیقات) میں چھ (6) اہم اقدام شامل ہیں: (1) تعلیمی تحقیق کا عمل کسی تحقیقی مسئلے یا مدے کی نشاندہی سے شروع ہوتا ہے.(2) اسکے بعد زیر غور تحقیقی مسئلے یا مدے سے متعلّقہ ادب(related literature) کا اعادہ(review— تنقیدی جائزہ لینا) کیا جاتا ہے.(3) متعلّقہ ادب کے اعادہ کے بعد مناسب تحقیقی سوالات(research questions) یا تحقیقی مقاصد (research objectives) ترتیب دیے جاتے ہیں. (4) اسکے بعد زیر غور تحقیقی مسئلے یا مدے سے متعلق آنکڑے(data) اکٹھے(collect) کئے جاتے ہیں. (5) اب تحقیقی سوالات یا تحقیقی مقاصد کو مدنظر رکھکر جمع کردہ آنکڑوں کا تجزیہ(analysis) کیا جاتا ہے اور ان سے نتیجہ اخذ (interpret) کیا جاتا ہے. (6) بالآخر اس مکمّل تحقیقی کارروائی کو ایک تحقیقی رپورٹ کی شکل میں تعلیمی سماج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، جو اس پر بحث کرتے ہیں، اسکی جانچ کرتے ہیں، اور موضوع پاۓ جانے پر اسکو استعمال کرتے ہیں.

حالانکہ تعلیمی تحقیق کو کئی زمروں میں بانٹا جا سکتا ہے، یہاں ہم تعلیمی تحقیق کی تین بنیادی قسموں کو سمجھنے کی کوشش کرینگے.

اہم مفروضات

Key assumptions

مطلوبہ حد تعمیم

Desired level of generalisation

مطلوبہ نتائج

Desired results

تحقیق کا محور

Focus of research

تحقیق کے مقاصد Purpose of research تحقیق کی قسم

Type of research

کائنات کا وقوع ترتیبوں/ دھروں پر ہے، جنکو جانا جا سکتا ہے اور جنکی وضاحت کی جا سکتی ہے بلاامتیاز وقت و جگہ (کامل و مثالی) کسی نظریہ (theory) کی توسیع میں ممد و معاون ثابت ہونا سوالات جو کسی شعبہ میں اہم سمجھے جاتے ہیں، یا ذاتی ذہنی دلچسپی کے سوال حصول علم ہی منزل مقصود، حقائق کی تلاش کرنا بنیادی تحقیق

(Fundamental/basic/ pure research)

علم کے ذریعہ انسانی

اور سماجی مسائل کو سمجھا جا سکتا ہے اور انکا حل نکالا جا سکتا ہے

ممکنہ حد تک ایک عمومی وقت اور جگہ میں، لیکن صاف طور پر محدود اطلاق ایسے نظریات (theories)، جنکا استعمال مسئلوں کو حل کرنے والے لائحہ عمل کو تیار کرنے میں کیا جا سکے، کی توسیع میں ممد و معاون ثابت ہونا سوالات جو سماج میں اہم سمجھے جاتے ہیں انسانی اور سماجی مسائل کی نوعیت اور انکے ذرائع کی سمجھ پیدا کرنا اطلاقی تحقیق

(Applied research)

کسی معاشرے کے لوگ اپنا مطالعہ کر کے(یعنی اپنے اوپر تحقیق کر کے) اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں یہاں اور اسی وقت فوری طور پر کارروائی/عمل؛ جتنی تیزی سے ممکن ہو،مسائل کو حل کرنا ادارہ اور معاشرے کے مسائل کسی لائحہ عمل کے منصوبے، ادارے، یا معاشرے میں موجود مسائل کو حل کرنا عملی تحقیق

(Action research)

  1. بنیادی تحقیق (Pure/basic/fundamental research) : ایسی تحقیق کسی نظریہ/تھیوری کو جنم دینے یا اسے بہتر بنانے کے لئے کی جاتی ہے؛اس کا مقصد موجودہ مسائل کو حل کرنا نہیں ہوتا. اس کے تحت ایسے نظریات اور مفروضات(hypotheses) کی جانچ کی جاتی ہے،جن میں محقق کی ذاتی طور پر ذہنی دلچسپی ہوتی ہے؛ لیکن ضروری نہیں ہے کہ انکا فوری طور پر یا مستقبل میں عملی اطلاق ہو. حالانکہ آگے چل کر ان تحقیقات کی بنإ پر اطلاقی نوعیت کی دوسری تحقیقات کی جا سکتی ہیں. بنیادی تحقیق سے پیدا ہونے والا علم پہلے سے موجود نظریات کی توسیع کرنے میں ممد و معاون ہوتا ہے. مادی اور حیاتیاتی سائنسوں میں ہونے والی زیادہ تر تحقیقات بنیادی نوع کی ہوتی ہیں.

  2. اطلاقی تحقیق (Applied Research): اطلاقی تحقیق روز مرہ کو متاثر کرنے والے عملی اور خصوصی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے کی جاتی ہے. اس قسم کی تحقیق کسی پالیسی کو تییار کرنے،یا کسی وقوعہ/ امر(جو مشاہدے یا ادراک میں آئے، خصوصا وہ جسکا سبب دریافت طلب ہو— phenomenon) کی سمجھ بنانے کے لئے کی جاتی ہے. اطلاقی تحقیق، بنیادی تحقیق سے وجود میں آئے ہو ئے نظریات کو موافق بنا کر مسائل کو حل کرتی ہے. سماجی علوم اور تعلیم کے شعبہ میں ہونے والی بیشتر تحقیقات اطلاقی نوعیت کی ہوتی ہیں.

  3. عملی تحقیق (Action Research): عملی تحقیق کے تحت سائنسی طریقہ کار کے طرز فکر کو استعمال کر کے کسی خاص ماحول میں موجود مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے. اس تحقیق میں حاصل نتائج کا زیر غور حالات سے بالاتر عمومی اطلاق کا مفروضہ کار فرما نہیں ہوتا،بلکہ یہ تحقیق نتائج کے فوری اطلاق پر زیادہ زور دیتی ہے(نہ کہ اطلاق کی تعمیم پر).

تعلیمی تحقیقی کی عام اقسام کے اس سرسری جائزہ کے بعد آئیے ہم عملی تحقیق کو ذرا تفصیل سے سمجھیں.

عملی تحقیق/ ایکشن ریسرچ کیا ہے؟

عملی تحقیق ایک باضابطہ تحقیق ہے جسکا اصل مقصد کسی خاص صورتحال میں موجود تعلیمی فعل یا پروگرام سے منسلک خصوصی مسائل کو حل کر کے زیر غور فعل کو بہتر بنانا ہے . اگر اساتذہ کی غور و خوض(teacher reflection) اور روایتی تعلیمی تحقیق(traditional educational research) کو ایک سلسلہ وار کڑی کے دو سروں پر رکھیں تو عملی تحقیق (action research) کو اس سلسلے کے درمیان میں رکھ سکتے ہیں. عملی تحقیق، اساتذہ کی غور و خوض کے مقابلے میں زیادہ باضابطہ اور آنکڑوں پر مبنی ہے، جبکہ روایتی تعلیمی تحقیق کے مقابلے میں کم اصولی(formal) اور معیار بند(controlled) ہوتی ہے.

تعلیمی پیشہ سے منسلک افراد کے درمیان یہ تحقیق کافی مشہور ہے. چونکہ اکثر اساتذہ اس تحقیق کو تعلیمی فعل کو بہتر بنانے کے لئے بروے کار لاتے ہیں، اس لئے اس تحقیق کو اساتذہ کی تحقیق“(teacher research) بھی کہتے ہیں. عملی تحقیق کے پیچھے یہ سوچ کار فرما ہے کہ اساتذہ ذاتی طور پر کئے گئے تجربہ اور اندازہ قدر سے زیادہ سیکھتے ہیں. کمرہ جماعت میں کی جانے والی عملی تحقیق اساتذہ پر یہ راز کھولتی ہے کہ انکے ذاتی کمرہ جماعت میں کون سی چیز سب سے بہتر کام کریگی؛ اس طرح اساتذہ اپنی تدریس سے متعلق دانشمندانہ فیصلے لے سکتے ہیں(مٹیٹل،٢٠٠٣). عملی تحقیق اساتذہ کو ایسا نظریاتی آلہ فراہم کرتی ہے جسکی مدد سے اساتذہ اپنے تدریسی عقائد اور تدریسی افعال کے درمیان موجود تعلّق کو سمجھ پاتے ہیں. اس تحقیق کے ذریہ اساتذہ اپنے تدریسی طریقہ کار کو بہتر بنانے کے علاوہ اپنے طلبہ کے برتاؤ سے متعلق مسائل کے پیچھے کار فرما وجوہات کو سمجھ سکتے ہیں، اپنے کمرہ جماعت کے نظم و نسق کو بہتر بنا سکتے ہیں،درس و تدریس کے عمل میں طلبہ کی حصّہ داری کو یقینی بنا سکتے ہیں، اور درس و تدریس کی دنیا سے جڑے ہو ئے ایسے ہی متعدد بنیادی مسائل کو حل کر سکتے ہیں. مک نف(٢٠٠٢) کے مطابق،تعلیم کے میعار کو بہتر بنانے والے طریقے اس تحقیق کا محور ہیں؛ یہ تحقیق اساتذہ کو ذاتی غور و فکر کے ذریعہ اپنے تعلیمی مشاغل میں منہمک ہونے کے مواقه فراہم کرتی ہے“. کرٹ لیون کے مطابق، عملی تحقیق ایک ایسی تحقیق ہے جو مختلف وضع کے سماجی عمل (action social) اور تحقیق کے شرائط اور اثرات کا تقابل کرنے کے لئے کی جاتی ہے. اس قسم کی تحقیق میں کئی چکر دار(spiral) اقدام شامل ہوتے ہیں، جن میں سے ہر قدم کے ساتھ منصوبہ بندی(planning)، عمل (action)، اور عمل کے نتیجہ سے متعلق حقائق کی تلاش(fact finding) کا ایک تواتر دور/سسلہ (cycle) چلتا ہے“. اس تواتر دور/سلسلہ کے دوران اساتذہ (1) کسی تعلیمی مسئلہ سے متعلق سوالات کھڑے کرتے ہیں،(2) تحقیقی سوالات سے متعلق آنکڑے اکٹھے کرتے ہیں،(3) حاصل کردہ آنکڑوں پر غور و خوض کر کے لائحہ عمل طے کرتے ہیں، اور (4) جب لائحہ عمل میں طے شدہ نکات پر کارروائی کر لی جاتی ہے تو اس کے نتائج پر پھر سے غور و خوض کیا جاتا ہے، اور ہنوز در پیش مسائل کو حل کرنے کے لئے پھر سے اقدام کا یہی سلسلہ وار عمل اختیار کیا جاتا ہے.

والسا کوشی نے عملی تحقیق کی خصوصیات کو مندرجہ ذیل نکات میں قلمبند کیا ہے :

  • عملی تحقیق میں اساتذہ اپنے ذاتی افعال پر ہی تحقیق کرتے ہیںیہاں دوسروں کے کام پر تحقیق نہیں ہوتی.

  • یہ ابھرتی ہوئی (emergent) اور اشتراکی (participatory) تحقیق ہے

  • یہ تحقیق حالات پر مبنی ہوتی ہے، اور حقیقی مسائل کے حل تلاشنے کے لئے استعمال میں لائی جا سکتی ہے

  • اس تحقیق کے تحت افعال(practices) کی بنا پر نظریات(theories) کی تعمیر و تشکیل ہوتی ہے

  • یہ تحقیق فرد واحد یا جماعتوں سے متعلق ہوتی ہے اور یہاں افعال کو بہتر بنانا عام مقصد ہوتا ہے

  • اس تحقیق میں تجزیہ، غور و خوض، اور تشخیش شامل ہیں

  • تحقیق کے ذریہ بدلاؤ کو بڑھاوا دیتا ہے

اب تک ہم نے صرف یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ عملی تحقیق کیا ہے. آئیے اب یہ جانیں کا عملی تحقیق کیا نہیں ہے.

جیسا کہ فیررانکے(٢٠٠٠) نے کہا ہے، عملی تحقیق وہ عمل نہیں ہے، جو عام طور پر لفظ تحقیقسننے پر ہمارے ذہن میں آتا ہے. عملی تحقیق کوئی لائبریری پروجیکٹ نہیں ہے جسکے تحت ہم کسی ذاتی دلچسپی کے موضوع کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کرتے ہیں. اس تحقیق میں نہ صرف یہ کہ کسی مسئلے کی خامیوں کا پتا لگاتے ہیں، بلکہ اس میں اس جانکاری کی بھی تلاش کی جاتی ہے جسکا استعمال کرکے حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے. یہ تحقیق لوگوں کے بارے میں نہیں ہے اور یہ لوگوں پرنہیں کی جاتی. اس کے تحت کسی موضوع سے متعلق صحیح جوابات فراہم کرنے کیلئے زیر غور موضوع پر موجود تمام جانکاریوں کو اکٹھا نہیں کیا جاتا. اس تحقیق میں ایسے لوگ شامل ہوتے ہیں جو اپنے ہنر، اپنی ترکیبوں، اور اپنے لائحہ عمل کو بہتر بنانے کیلئے لگاتار کوشاں رہتے ہیں. ہم کوئی کام کیوں کرتے ہیں، یہ جاننے کے لئے عملی تحقیق نہیں کی جاتی، بلکہ یہ اس بات کو جاننے کیلئے کی جاتی ہے کہ ہم کسی کام کو بہتر کیسے بنا سکتے ہیں. مثلاً ہم اپنی تدریس میں کس طرح کے بدلاؤ لائیں کہ طلبہ پر خاطر خواہ اثر ہو.

عملی تحقیق کو علیحدہ طور پر (صرف ایک استاذ کے ذریعہ—individually)، یا شاملاتی طور پر(ایک سے زیادہ استاذ یا اسکول کے تمام اساتذہ اور دیگر افراد کے ذریعہ—in collaboration) کیا جا سکتا ہے. حالانکہ شاملاتی طور پر کی جانے والی عملی تحقیق زیادہ مناسب اور بہتر سمجھی جاتی ہے، لیکن اس کتابچہ میں ہم علیحدہ طور پر کی جانے والی عملی تحقیق پر ہی چرچہ کرینگے.

عملی تحقیق کے اقدام (Steps for Doing Action Research)

تعلیمی ماحول میں کی جانے والی عملی تحقیق کے تحت موجودہ آنکڑوں کا استعمال کرکے کسی کمرہ جماعت یا اسکول سے جڑے ہوئے کسی مسئلے کی نشاندہی کی جاتی ہے؛ ایک لائحہ عمل تیار کر کے اسے نافذ/ لاگو کیا جاتا ہے؛ پھر سے آنکڑے اکٹھے کر کے انکا تجزیہ کیا جاتا ہے؛ اور اس طرح حاصل کردہ نتائج کی بنا پر ایسے تدریسی فیصلے لئے جاتے ہیں جنسے طلبہ کی آموزش میں لگاتار بہتری آئے. حالانکہ الگ الگ طرح کی عملی تحقیق الگ الگ ماحول میں کی جاتی ہے، پھر بھی عملی تحقیق کا طریق عمل ہر ایک ماحول میں ایک جیسا ہی رہتا ہے. اس تحقیق میں پانچ بنیادی اقدام شامل ہوتے ہیں، جنکو نیچے بنی ہوئی شکل میں دکھایا گیا ہے.

 

‫‫

شکل 1 : عملی تحقیق کے پانچ بنیادی اقدام [ذریعہ:- حسین (٢٠١٢) سے ماخوذ]

آئیے اب درج بالا شکل میں دکھاۓ گئے عملی تحقیق کے مختلف اقدام کو تفصیل سے سمجھیں. دراصل ان پانچ بنیادی اقدام میں سے ہر ایک میں کئی چھوٹے چھوٹے اقدام شامل ہیں. یہاں ہم ہر ایک کی چرچہ الگ الگ کرینگے.

1.کسی رائج تعلیمی فعل یا پروگرام اور اس کے نتائج سے متعلق آنکڑوں کا حصول

(a) مسئلے کی نشاندہی کرنا (problem of identification) اور تحقیقی سوالات ترتیب دینا(formulating research questions) : تعلیمی میدان میں عملی تحقیق کرنے کا اصل مقصد تعلیمی افعال کو بہتر بنانا ہوتا ہے. اس لئے استاذمحقق(researcher- teacher) کو سب سے پہلے کسی مروّجہ تعلیمی فعل یا پروگرام، جسکو بہتر بنانا ہے، کی نشاندہی کرنی ہوتی ہے. استاذمحقق مروّجہ تعلیمی فعل یا پروگرام سے جڑے ہو ئے کسی ایک(یا ایک سے زیادہ) مسئلے کو چن لیتی/لیتاہے اور پھر اسی کے مطابق اپنے تحقیقی سوالات کو ترتیب دیتی/دیتا ہے.

متیٹل(٢٠٠٣) کے مطابق،ایک اچّھے تحقیقی سوال کی تین اہم خصوصیات ہوتی ہیں: (1) سوال کمرہ جماعت کے لئے موضوع اور اہم ہو، یعنی کہ اس پر کی جانے والی تحقیق سے طلبہ کی آموزش پر فرق پڑے. (2) تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج پر عملی کارروائی کی جا سکے ، مَثَلاً کسی تدریسی طریقہ کار کو قائم رکھنا یا بدل دینا. (3) یہ سوالات ایک ایسے پروجیکٹ کی شکل لے سکیں جو وقت، محنت، اور وسائل کے لحاظ سے ممکن ہو“. “مزید یہ کہ تحقیقی سوال ایسا ہو کہ اسکا جواب ہاںیا نہیںمیں دینا ممکن نہ ہو؛ آسان زبان میں کہا گیا ہو، زیادہ تکنیکی زبان کا استعمال نہیں کیا گیا ہو؛ اختصار سے کہا گیا ہو؛ معنی خیز ہو؛ اور اسکا جواب پہلے سے ہی موجود نہ ہو“(فیررانکے ،٢٠٠٠). کئی بار کچھ مسائل اتنے واضح ہوتے ہیں کہ انکی نشاندہی بڑی جلدی ہو جاتی ہے. بعض اوقات یہ سوالات کمرہ جماعت میں پیدا ہونے والی الجھن یا بیچینی سے نکل کر سامنے آتے ہیں. مَثَلاً ایک استاذ جدید ترین اور مروّجہ تدریسی طریقہ کار کو استعمال کر رہی/رہا ہو، لیکن اسے اس بات کے بارے میں زیادہ علم نہ ہو کہ طلبہ کیا اور کیسے سیکھ رہے ہیں.

(b) تحقیق سے متعلق تعلیمی ادب کا تنقیدی اعادہ کرنا (review of the related literature) : تحقیقی مسئلے یا مسائل کی نشاندہی کر لینے اور تحقیقی سوالات کو ترتیب دے دینے کے بعد استاذمحقق کا اپنے تحقیقی موضوع سے متعلقہ تعلیمی ادب کا تنقیدی اعادہ کرنا ضروری ہے. متعلقہ تعلیمی ادب کا تنقیدی اعادہ استاذمحقق کو اسکے تحقیقی پس منظر سے متعلق جانکاریوں سے روشناس کراتا ہے، جسکی وجہ سے استاذمحقق کو اپنے تحقیقی سوالات کو مزید بہتر بنانے اور عملی تحقیق کے لئے ایک مناسب طریقہ کو اختیار کرنے میں مدد ملتی ہے. ثانوی اور ابتدائی(ایلیمنٹری) سطح کے اساتذہ کو ایک اچّھی عملی تحقیق کرنے کیلئے تدریسی موضوع پہ لکھی ہوئی عام کتابوں، تحقیقی پرچوں، اور تعلیمی جریدوں (جو کہ اسکولوں اور ٹیچرایجوکیشن کے اداروں میں آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں) میں موجود ادب کا اعادہ کرنا چاہیے. ایسے ادب کو حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ انٹرنیٹ بھی ہے.

(c) تحقیقی مسئلے سے متعلق (ابتدائی) آنکڑے اکٹھا کرنا (collection of preliminary data ) : اگلا اہم قدم ہے زیر غور تحقیقی مسئلے سے متعلق آنکڑے اکٹھا کرنا. اس سے استاذمحقق کو یہ فیصلہ لینے میں آسانی ہوتی ہے کہ کون سے اقدامات اٹھانے ہیں. ان آنکڑوں کو اکٹھا کرنے کے لئے کئی آلات(tools) کا استعمال کیا جا سکتا ہے: سوالنامہ (questionnaire)، مکالمہ (interview)،فہرست(check-list)،درجہبندی کا پیمانہ(scale-rating)، دستاویز(document) اور روئیداد/record (جیسے کہ اساتذہ یا طلبہ کی ڈائری، ذاتی فائلیں،طلبہ کے کام کے نمونے، حکایتی روئیداد/anecdotal records، تشخیصی دستاویز/test records، رپورٹ کارڈ، حاضری/attendance، جریدہ/journal، خریطہ/portfolio،وغیرہ). اسکولوں یا کمرہ جماعت میں ہونے والے واقعات کو بہتر طریقہ سے سمجھنے کے لئے آنکڑے حاصل کرنے کے متعدد ذرائع کو استعمال میں لایا جانا چاہئے. اسے تحقیق کی زبان میں triangulation کہتے ہیں. عام طور پر استاذمحقق کو چاہیے کہ وہ کئی مختلف قسم کے آنکڑے حاصل کرے، تاکہ نتائج کی مطابقت(consistency) کی جانچ ہو سکے. لیکن شروعات ان آنکڑوں سے کرنی چاہیے جو پہلے سے ہی استاذمحقق کی دسترس میں ہوں، جیسے طلبہ کے اسائنمنٹ، امتحان میں حاصل کئے ہو ئے نمبر،وغیرہ.

2. حاصل کردہ جانکاری پر غور و خوض

جب زیر غور مسئلے سے جڑے ہو ئے ابتدائی آنکڑے جمع ہو جایئں، تو استاذمحقق کو ان آنکڑوں میں موجود ترتیب/ڈھروں(patterns) کو تلاش کرنا چاہئے. استاذمحقق کو حاصل کردہ آنکڑے کا ہر ممکن پہلو سے تنقیدی تجزیہ کرنا چاھئے اور آنکڑوں سے ابھر کر سامنے آنے والے اہم نکات اور موضوعات (themes) کو نوٹ کرنا چاہئے. اب ان تمام اہم نکات اور موضوعات پر غور و خوض کرنے کے بعد استاذمحقق کو یہ فیصلہ لینے میں مدد ملتی ہے کہ حالات کی بہتری کیلئے کون سے اقدامات اٹھاۓ جایئں.

3. حالات کو بہتربنانے کے لئے لائحہ عمل کی تیاری اور اسکا نفاذ

زیر غور مسئلے سے متعلقہ ادب کا تجزیہ کرنے، حاصل کردہ آنکڑوں سے ابھرنے والے اہم نکات اور موضوعات پر غور و خوض کرنے کے بعد، استاذمحقق کو حالات کو بہتر بنانے کے لئے ایک منصوبہ تیار کرنا ہوتا ہے. بہتری کے اس منصوبے کو لائحہ عمل‘(action plan) بھی کہتے ہیں. اس لائحہ عمل کا نفاذ‘ (implementation) ہی عملی تحقیق کی روح ہے. لائحہ عمل کے اس نفاذ سے استاذمحقق حالات میں کوئی تبدیلی لا سکتی/سکتا ہے اور اس تبدیلی کے اثرات کا مطالعہ کر سکتی/سکتا ہے. فیررانکے(٢٠٠٠ء) بتاتے ہیں کہ اس بات کا خاص خیال رکھنا چاھئیے ایک وقت میں صرف ایک ہی variable (زیر غور مسئلے سے جڑا ہوا کوئی ایک تغیر پذیر پہلو) کو تبدیل کرنا چاہئے. کیونکہ اگر بیک وقت بہت سی تبدیلیاں کر دی جائیںگی تو یہ طے کرنا مشکل ہو جائیگا کہ ظاہر ہونے والے نتیجے/ نتیجہ کس تبدیلی قدم کی وجہ سے سامنے آیا ہے.

4. تبدیلیاں کرنے کے بعد زیر غور تعلیمی فعل یا پروگرام سے متعلق آنکڑوں کا دوبارہ حصول

ایک بار بہتری کا ایک اچھا منصوبہ یا لائحہ عمل تیار کر لینے اور اسے نافذ کر دینے کے بعد، اٹھاۓ گئے اقدامات کی افادیت سے متعلق آنکڑے اکٹھے کرنے کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے. اس طرح دوبارہ حاصل کئے گئے آنکڑے اس بات کی تصدیق یا تردید کرتے ہیں کہ لائحہ عمل کے نفاذ کے بعد سامنے آنے والے نتائج اٹھاۓ گئے اقدام کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئے ہیں. اسلئے کوئی نیا لائحہ عمل نافذ کر دینے کے بعد استاذمحقق کو اسکی کارگزاری سے متعلق آنکڑوں کو لگاتار جمع کرتے رہنا پڑتا ہے.

5. بہتری کے منصوبے یا لائحہ عمل کے انجام سے متعلق آخری نتائج کی تیاری

دوسرے مرحلے میں حاصل کئے گئے آنکڑوں کے حصول کے بعد استاذمحقق کو اٹھاۓ گئے اقدامات کے اثرات کو جاننے کے لئے ان آنکڑوں کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے .اس تجزیہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ لائحہ عمل کے نفاذ سے زیر غور مسائل میں کوئی بہتری ہوئی ہے یا نہیں. اگر اٹھاۓ گئے اقدام کو موثر پایا جاتا ہے، تو یہ آئندہ لئے جانے والے فیصلوں کی بنیاد بنتا ہے. اگر مسائل میں کوئی بہتری نہیں ہوتی ہے، تو استاذمحقق کو اس بات پر دوبارہ سوچ بچار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اب کون سی تبدیلیاں کرے جس سے بہتر نتائج سامنے آئیں، اور آئندہ کون سے اقدام اٹھاۓ جایئں. اس طرح لائحہ عمل کے انجام کے بارے میں جانکاری ملتی ہے. کئی دفع عملی تحقیق سے ابھر کر سامنے آنے والے نتائج مزید ایسے سوالات کھڑے کر دیتے ہیں جن پر دوبارہ پڑتال کی ضرورت ہوتی ہے. اسلئے استاذمحققق

کو چاہیے کہ وہ ایسے سوالات کی نشاندہی کرے، اور مزید بدلاؤ اور بہتری کیلئے منصوبہ بندی کرے

تحقیقی نتائج کو اساتذہ اور محققین کے حلقے سے سانجھا کرنا

ہمارے ملک کے بیشتر اسکولوں میں درس و تدریس کو ایک علیحدہ عمل کی طرح برتا جاتا ہے. اسکولی کیلنڈر اور ٹائمٹیبل میں اساتذہ کے لئے شاید ہی کوئی ایسا وقت مخصوص ہوتا ہے جسمیں وہ اپنے پیشہ سے متعلق گفت و شنید کر سکیں اور پیشیورانہ بحث و مباحثے میں مشغول ہو سکیں. لہذا ایک ہی عملی میدان میں کام کرنے والے دو مختلف اساتذہ ایک دوسرے کے کام کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے شاید ہی رو شناس ہو پاتے ہیں. اس لئے عملی تحقیق کے اختمام پر ہر ایک استاذمحققق کو اپنی تحقیق کے نتائج سے وابسطہ جانکاری کو اساتذہ اور محققین کے حلقے کے ساتھ سانجھا کرنا چاہیے. حالانکہ کسی ایک استاذمحققق کے ذریعہ (کسی خاص مسئلے سے متعلق) حاصل کئے جانے والے جوابات و نتائج خصوصی طور سے اسی کے تعلیمی ماحول کے لئے موزوں ہونگے، مگر دوسرے استاذمحققق کو اس تحقیقی عمل سے بہت سی جانکاریاں مل سکتی ہیں جو اسکی ذاتی تحقیق کے لئے سودمند ثابت ہوں

عملی تحقیق کے نتیجوں کو اساتذہ اور محققین کے حلقے میں غیر رسمی طور پر سانجھا کیا جا سکتا ہے. مزید یہ کہ اسکولوں اور ٹیچر ایجوکیشن کے اداروں میں پائے جانے والے علمی اور پیشیورانہ مباحثوں کے لئے موجود مشاورت گاہوں(forums) میں بھی ایسی جانکاریوں کو ساتھی اساتذہ اور محققین کے درمیان رکھا جا سکتا ہے. ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان نتیجوں کو درس و تدریس کے موضوع پر منعقد ہونے والے رسمی سیمینار اور ورکشاپ میں اساتذہ اور محققین کے حلقہ میں پیش کیا جائے. عملی تحقیق کے نتیجوں کو ایک مضمون/تحقیقی پرچہ کی شکل میں تعلیمی جریدوں میں اشاعت کیلئے بھی بھیجا جا سکتا ہے


محمّد جاوید حسین عظیم پریم جی یونیورسٹیبنگلور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں. اس سے قبل آٹھ سال تک جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور سینٹرل انسٹیٹیوٹ اف ایجوکیشن دہلی یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے چکے ہیں.براہ کرم اس مضمون کا حوالہ اس طرح دیں:

حسینایم. جے. (2015٥) “عملی تحقیق: کیاکیوںاور کیسے؟جسیم احمد (ایڈٹیڈ ). عملی تحقیقمتالعہ احوالاورتحصیلی آزمائش . نئی دہلی: وی. ایل. میڈیا سلوشنز . (صفحہ 39-57).

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے