اچھے اساتذہ اور سیکھنے سکھانےکی بنیادیں

انسانی معاشروں میں قطع نظر اس بات سے کہ ان کی افادیت ہے یا نہیں ہے اب اسکولی نظام موجود ہے۔ کسی بھی قسم کا اسکول ہو چاہے وہ مروجہ ہو  یا متبادل (جس میں کچھ گھریلو اسکول بھی شامل ہیں ) بچے گھر اور والدین سےدور جاتے ہیں اور ایک الگ قسم کے بالغوں کے گروپ کے پاس (جنھیں اساتذہ کہتے ہیں) ایک سرگرمی میں حصہ لینےکیلئے جاتے ہیں جو “تعلیم” کہلاتی ہے ۔

“تعلیم اسکولوں میں کچھ واضح اور کچھ غیر واضح قسم کی سرگرمیوں یا اعمال کا نام ہے۔ اسکولس، اکتساب کے اس پروجیکٹ کو بڑے پیمانے  پر تجارت کی شکل دے چکے ہیں (پیشہ وارانہ اور معیشی نقطہ نظر سے)۔

اسکولس ہر ہر  بچے کو مستقبل کی  پیشہ وارانہ ضرورتوں کے لئے تیار کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ 

اسکول کو جانا صرف ایک معمول نہیں ہے بلکہ حسب معمول ہے چہ جائیکہ کوئی وقت یا روپیہ با لکل ہی نہیں لگا سکتا ہو۔  زیادہ تر والدین کیلئے جو اسکول پر خرچ کرنے کیلئے کافی روپیہ اور وقت لگا سکتے ہیں اُن پریہ  واضح ہے کہ تعلیم اُن کے بچوں کی ذہنی نشو نما کیلئے، اُن کے مستقبل کی ضمانت کیلئے، اُن کی اعلیٰ  سماجی تغیر پذیری کیلئے اور دوسری اسی قبیل کی یکساں و مختلف وجوہات کی بناء پر تعلیم ضروری ہے۔ چند والدین تعلیم کو ایک روحانی تحریک کی حیثیت سے بھی دیکھتے ہیں  جو ان کے بچوں میں انسانی اقدار کی تربیت دینے کا ایک عمل ہوتا ہے۔  

کُل  ملاکر، اسکولس  تیاری کے مراکز اور اسکولی تعلیم ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت جس میں یا تو فرد کی معیشیت مضبوط ہوتی ہے یا ادراک خودی ہوتا ہے۔  طلباء کے تعلیمی مقاصد نہ صرف والدین کی خواہشات و تمنائوں سے ہی وابستہ ہوتے ہیں بلکہ انکے اطراف کے معاشرے کے مطالبات کے بھی اس میں اچھا خاصا رول ادا کرتے ہیں  ۔ 

اسکولی نظام تعلیم کے اس وسیع و عریض  میدان میں منقطع کھلاڑی کی طرح نہیں ہو تے ہیں۔ وہ اکثر طلباء کو انفرادی طور پر رہنمائی کا عندیہ دیتے  ہیں انہیں خصوصی اور عمومی طریقوں سے موجودہ معاشرہ کے مطالبات کا نظم کرتےہیں یا کبھی کبھار ایک اعلیٰ معاشرہ کی داغ بیل کیلئے درکار صلاحیتوں اور انسانوں  کی تیاری کا بھی بیڑہ اٹھاتے ہیں۔ 

اساتذہ انفرادی حیثیت سے  : اب ہم استاد کے متعلق بات کر سکتےہیں، بد قسمتی سے استاد اکثر اسکول کے نظام کا ایک عنصر بن جاتا ہے اورمثل محاورہ اس کی حیثیت اور رفتارمشینری کے پُرزے کی طرح ہوجاتی ہے۔جو مروجہ معیارتعلیم اور ووکیشنل تربیت کے نظام  کو برقرار رکھنے کیلئے استعمال ہوتا ہے۔

حالانکہ میرے خیال میں اساتذہ کسی مخصوص دائرہ کار سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ 

وہ نہ ہی ان مخصوص  اداروں کے نمائندے ہوتے ہیں جنہیں اسکول کہا جاتا ہے اور نہ ہی وہ معاشرے کے ایجنٹ  ہوتے ہیں جو اپنی دانست میں مخصوص مطالبات اور ضروریات کی خاطر اسکول کی سے نوجوان ذہنوں کی کھیپ کی کھیپ چاہتا ہے!  وہ آزاد محققین ہیں جو اکتساب یا تعلیم کے طریقہ عمل میں مشغول عمل ہوتے ہیں۔   

وہ مخصوص نظریات کے مبلغ نہیں ہوتے ہیں بلکہ  وہ تمام ہی نظریات کے فکرمند مبصّرو ناقد ہوتے ہیں  وہ بالغ دنیا کے مثالی فرد ہونا ضروری تو نہیں لیکن وہ ایسے جوان ہوتے ہیں جو ہمارے سماج سے ہی آئے ہوتے ہیں البتہ اسی سماج کی طرف واپس  نظر ڈال کر اس پر تبصرہ کرنے والے ہوتے ہیں جس سماج کو ہم سب نے زبردستی طور پر بغیر کسی گہری فکر و نظر کے اپنے اوپر لاد لیا ہے۔ ایک معلم اپنے پاس ایسی قابلیت یا حیثیت رکھتا نظر آتا ہیکہ  طلباء اور ان کے اکتساب پر اثر ڈالنے کیلئے راست طور پر یا زبردستى بھی کرے۔ 

 کئی بار ایسا ہوتا ہیکہ کچھ لوگ ہماری  زندگیوں میں اپنے پیچھے گہرے اسباق چھوڑجاتے ہیںجو ہمیں طویل مدتی غور و فکر کیلئے آمادہ کرتے ہیں۔

جب میں میری زندگی میں ملنے والے اچھے اساتذہ کی صفات  کے بارے میں سوچتا ہوں تویہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ وہ کیا  چیزہے جو انھیں ایسا بناتی ہے۔ ان کے طلباء کی ضرورتوں اور اعمال کی بیناد پر پروہ  غیر مشروط طور پرطلباء سے محبت کرتے نظر آتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انہیں سرزنش کرنے والے ، کھلےذہن کے افراد کی طرح محسوس ہوتے ہیں۔ وہ گہرے علم سے لیس لیکن ہر لحظہ سیکھنے کیلئے تیار  ایسے نفوس ہوتے ہیں جو اپنی کلاس کیلئے اچھی طرح تیاری کرتے ہیں اور نرم مزاج اور بے ساختہ بھی ہوتے ہیں۔ وہ گفتگو کے دوران بلند توانائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اکتساب کیلئے مواد کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ وہ غیر رسمی گفتگو زیادہ کرتے ہیں اپنی گفتگو میں ہمہ تن گوش، متوجہ اور اپنے آپ کو ہمیشہ قابل رسائی رکھتے ہیں۔ وہ مضبوط اور ساتھ میں رحم دل بھی ہو تے ہیں اور طلباء اور کمرہ جماعت سے آگے بڑھ کر کسی بڑے اور وسیع مقصد کے تئیں ذمہ داری کو نباہتے نظر آتے ہیں اور کئی بار وہ خود ہم جیسے عام انسان کی طرح بھی نظر آتے ہیں۔  اکثر ایسے اساتذہ خود اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے ناواقف ہو تے ہیں اور یہی چیزانھیں خاکسار بناتی ہے اور قابل ستائش بھی۔  

تدریس،  پیشہ کی حیثیت سے: ہمارے ایک رفیق نے مشہورانگریزی ماہانہ میگزین ”دی ایکونامسٹ“ کا ایک مضمون مجھے دکھایا جسکا عنوان تدریس  اور تربیت اساتذہ سے متعلق تھا۔ایسا نظر آتا ہے کہ والدین جن چیزوں کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کلاسوں کی سائز، یا صلاحیتوں کی بنیاد پر طلباء کی درجہ بندی وغیرہ, دراصل وہ چیزیں ہیں جو بچوں کیلئے کامیاب اکتسابی عمل سے کوئی واسطہ نہیں رکھتیں! بچوں کی صلاحیت کے اعتبار سے درجہ بندی دراصل استاد کے اوپر منحصر کرتی ہے، کہ استاد کلاس روم میں مختلف قسم کے بچوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے۔ یہ دریافت تعجب کرنے والی نہیں  ہے لیکن یقینا مفید تر ہے جو کئی مطالعوں اور تحقیقوں پر مبنی ہے کہ استاد تعلیمی نظام میں یقینی طور پرسب سے بنیادی اثررکھتا ہے اور تعلیم کے وسیع نظام میں تبدیلی لانے والا شخص دکھائی دیتا ہے۔

  اس مضمون میں مزید بیان کیا گیا ہیکہ اچھی تدریسی صلاحیتیں آرٹ کی طرح پیدائشی فن ہوتی ہیں جن کے ساتھ ہی افراد پیدا ہو تے ہیں، ایسا کم ہی سہی لیکن ہو ضرورسکتا ہے وہیں یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ کلاس روم کی  تدریس انتہائی باریک اور مہارت والا کام ہے جسے ضرور بالضرورسیکھا جاسکتا ہے، جبکہ پڑھانے کی تکنیکوں کو اچھی طرح سمجھ کراورموثر طورپرعمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔ 

کرداری سائنس کے ذریعہ بیان کی گئی اس قسم کی تدریسی مشقوں کوسیکھا جاسکتا ہے مثلا تعلیمی  نفسیات کے شعبہ میں۔ کلاسیکی اورعصری تحقیق اس ضمن میں کافی معلومات سے پُر ہیں، جو کلاس روم کی تعلیم  کے متعلق مفید نظریات اورنمونوں سے بھری ہوتی ہے۔ اساتذہ اور طلباء کو سیکھنے، پڑھانے اور مختلف النوع شخصیات کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ذہنی ادراک اور اخلاقی نشو نما میں بچوں کے ترقیاتی سنگ ہائے میل کے نمونے اور تعلیمی اداروں کیلئے فائدہ مند ترکیبات کے بارے میں اور شرکتی تعلیم  اورخصوصی اکتساب کی ضرورتوں سے متعلق ماڈل اور نمونے وغیرہ ۔

کوئی بھی نفس اس شعبہ کے پیش کردہ بصیرت سے پُر نتکوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ موثر تدریسی  مشقوں کو سیکھنا اساتذہ کے اکتسابی تجربے میں اضافہ کرسکتا ہے۔  

اچھی تدریس اوراچھا معلم: موثر تدریسی  تکنیکوں کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ، یہ بات ذہن نین ہونی چاہئے کہ تدریس اور اکتساب کے اس عمل میں ایک شخص تخلیقی تعاون بھی کرتا ہے۔ میں چند ایسے سوالات پر مختصر طور پر بحث کرنا چاہتا ہوں جو یہ اس بات کے متحمل ہیں کہ اس نکتہ کو ثابت کریں بلکہ کلاس روم اور اسکول کے کلچر و اخلاقیات کو بھی بدل ۔  ان سوالات نے میرے تدریسی سفر میں جہاں حوصلہ بڑھا یا وہیں مجھے پریشان بھی کیا۔ اس قسم کے سوالات روزانہ کی مشقوں میں امید ہیکہ مختلف قسم کے کام صرف آسان ہدا یاتی مشوروں کے بجائے بھی ابھریں گے۔

بنیادی  بات : جہاں ایک اچھے استاد کی اہمیت کو تسلیم  کرنا اہم ہے وہیں اچھی تدریس پر فوکس رہنا چاہئے بجائے اسکے کہ ہم انفرادی اساتذ ہ کی شناخت کرتے رہیں۔ سیکھنا اور سکھانا تعلیمی علم کی سب سے اہم چیزیں ہیں۔ ایک استاد کی ایسی جانچ  کرنا کہ وہ اچھا یا خراب ہے دراصل اس کی شخصی صلاحیتوں پرضرورت سے زیادہ روشنی ڈالنے کا موجب بنتا ہے۔ کسی بھی شخص کی ترقی بحیثیت ایک کردار کے عموماََ ایک مضبوط اور مستحکم صلاحیت یا مستقل صلاحیتوں کی بابت ہی دیکھی جاتی  ہے، اس نکتہ پر ہمیں ٹہر کر سوچنا چاہئے۔ 

یہ خیالات میرے نجی نہیں ہیں بلکہ کئی مفکرین کے ذریعہ تحریک پائے ہوئے ہیں۔ میں ان سوالات کو اٹھانا چا ہوں گا، مثال کے طور پرگذشتہ صدی کے مفکر جے۔ کرشنا مورتی جو زندگی اور تعلیم پر اپنے مکالمات کے لئے مشہور ہیں، ان کی جانب سے کئے گئے چند سوالات کو پھر سے زندہ کرتے ہوئے تدریس  و اکتساب کے طریقہ عمل کو اعلیٰ سطحی نظر سے دیکھا جاسکتا ہے، جو ایک اچھے استادکو تحریک دے سکتے ہیں۔ 

تعلیمی نظام میں صحیح تعلق رکھنے کا مطلب کیا ہے؟ تعلق، اکتساب کی بنیاد کی طرح نظر آتا ہے، کم سے کم اسکولی سطح پر۔نہ صرف طلباء اور اساتذہ کے درمیان ایماندار اورکشادہ ذہنی تعلق بلکہ ساتھی اساتذہ اور اساتذہ اور اولیائے طلباء کے درمیان بھی بہتر تعلق ہونا چاہئے۔اس کا مطلب یہ ہیکہ نہ ہی صلاحیتوں کا غیر صحتمندانہ تقابل ہو اور نہ ہی امتیازی صلاحیتوں پر زیادہ فوکس ہو۔ ٹھیک اسی طرح، کیا یہ ممکن ہوگا کہ طلباء کو ایسے ہی دیکھا اور سمجھا جائے جیسے کہ وہ ہیں، اور صلاحیتوں کے معاملے میں کسی اور سے ریلیٹ نہ کیا جائے۔  کیا ایک استاد اپنی اُس ذاتی ضرورت سے واقف ہو سکتا ہے جس میں اُسے طلباء کی منظوری اور تعریف کی ضرورت ہوتی ہے ؟ کیا استاد طلباء سے ایسا تعلق قائم رکھ سکتا ہے جو صرف اس کے ذاتی فائدے کیلئے مفید ہو؟۔

کلاس روم میں ”آرڈر“ کیسے تلاش کرسکتے ہیں؟ کلاس روم میں نظم و ضبط  پر مکمل قابو رکھنا ایک اچھے استاد کی مہر سمجھی جاتی ہے۔ فرمانبرداری کا اظہار، نظم اور ترتیب قائم کرنا  گویا استاد کو احساسِ کمال و اِتمام عطا کرتا ہے! میری مراد یہ نہیں کہ بے ترتیب اور منتشر کلاس روم کوئی بہتر چیز ہوتی ہے۔ لیکن یہ انتہائی اہم ہیکہ کوئی استاد کلاس روم اور طلباء کوکنٹرول کرنے کے چلتے خود اپنے آپ سے لڑنے نہ لگے۔ سیکھنے کے عمل کو کھلا اور جاری رکھنا چاہئے، بغیر کسی علمی رُعب اور تجربے کی دھونس جمائے! یہ دو چیزیں استاد اور طلباء کے درمیان ایک بہترین تعلق کو جوڑیں گی۔ کلاس روم میں پڑھائے جانے والے مواد یا مضمون پر گرفت کے بارے میں غیر یقینی کیفیت یا طلباء کوسنبھالنے کی صلاحیت کی کمی، الجھن کو جنم دے سکتے ہیں لیکن اِن کے مخالف کیفیت موثر تدریس کی ضمانت بھی نہیں دے سکتی! کلاس روم ڈِسِپلن، سخت نظم و ضبط کا نام نہیں ہے بلکہ شوق اور دلچسپی کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ اور یہ سخت اور غیرمُحِبّانہ استاد – طالب علم تعلق میں ممکن نہیں۔

خوف اور مزاحمت، اکتسابی عمل پر کیا اثرکرتے ہیں ؟ دور حاضر میں اسکولس صلاحیتوں کے مظاہرے سے عبارت ہو گئے ہیں۔  اکثر اچھے اسکول کی تلاش کرپانا اچھے سرپرستوں کا امتیاز سمجھا جاتا ہے!ایسے کچھ بھی نہیں سیکھا جاسکتا ہے۔ مظاہرہ کی جانچ یا تشخیص دراصل اوزار ہیں طلباء میں مہارت کے فروغ  کو سمجھنے کیلئے۔ کسی کی اکتسابی صلاحیت کو باربار اِن طریقوں کی روشنی میں جانچتے رہنا اور سیکھنے کے عمل کو خالص اضافی اورکارکردگی پر منحصر سمجھنا، طالب علم اوراستاد دونوں میں تشویش اور اعصابی ہیجان  پیدا کرسکتا ہے۔ یہ جانچ کے پیمانےسارے اکتسابی عمل پر قابض نہیں ہوسکتے۔ کلاس روم اوراسکول کا ماحول اکثربچوں میں کسی مضمون کے تئیں اور کارکردگی کا خوف پیدا کرتے ہیں۔ کیا ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح یہ خوف تعلیمی عمل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن چکا ہے؟  مضمون میں کارکردگی یا استاد – طالب علم رشتہ میں مظاہرہ کے خوف کو سمجھنا ہی نہیں بلکہ خوف کے متعلق سیکھنے کا مشاہدہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اکتساب ایک جذباتی تجربہ ہے۔ اس چیز کو سمجھنا دراصل مزاحمت کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔  

اس کے بعد حوصلہ افزائی کے کسی خارجی محرک کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

محرک کو کیسے سمجھیں ؟ ہم بالغ لوگ اپنی زندگیوں میں مختلف اقسام کے “ تشدد آمیز رویے” روا رکھتے ہیں۔ اکتسابی عمل میں انعامات اور سزاؤں کی طرف رجوع کرنا اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ محرکے کے اس نظام  کی سختی کا راست مشاہدہ کرنا ممکن ہے۔ یہ جلد ہی ظاہر ہوجا تا ہے کہ سزا کیوں اور کیسے سخت ہے لیکن یہ واضح نہیں ہوتا کہ انعامات “پُرتشدد” کیسے ہیں۔ متوقع کردار اور رویوں کی امید اُن ہی کا انتخاب اورانھیں ہی انعامات سے نوازنا میرے خیال میں طلباء کو پویلین میں بیٹھے کتوں کے مقابل سمجھنا ہے۔ اِس سے میری مُراد سنجیدہ اور شریفانہ ہمت افزائی، موثرتعریف اور واجب سرزنش نہیں ہیں۔

   انعامات اور سزاؤں کا ایک سادہ نظام، مروجہ اصولوں کی اندھی مطابقت کا رجحان پیدا کرتا ہے، اور اُبھرتی تخلیق کیلئے سُمِّ قاتل ثابت ہوتا ہے۔  یقینی طورپر ہم ریاضی اور انگریزی ادب سیکھ سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ اُس سخت مزاجی کے بارے میں بھی سیکھ سکتے ہیں جو دوسروں کو ریاضی اور انگریزی سیکھنے کیلئے آمادہ کروانے کے دوران برتی جاتی ہے۔

مندرجہ بالا چار سوالات ایک معلم یا استاد سے راست تعلق رکھتے نظرآتے ہیں جبکہ وہ اکتسابی عمل میں حصّہ لے رہے ہوں۔ اب چند اور مزید پیچیدہ سوالات پر نظر ڈالتے ہیں جو مجھے محسوس ہوتا ہیکہ ایک  استاد طویل مدت کے لئے نظر انداز کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔   

Conditioning کا کیا کردار ہوتا ہے؟    

  یہ محسوس کرنا انتہائی اہم ہے کہ ہماری زندگی میں محرکات اور خوف خود ہمارے تنہا نہیں ہوتے بلکہ وہ  ہمارے ذہن کی پرداخت میں بحیثیتِ مجموعی بٹے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ بتدریج نسل در نسل ودیعت ہوتا جارہا ہے۔ کیا اِس حقیقت کو اِدراک ممکن ہوگا کہ  “ہم ہی دُنیا ہیں” (کرِشنا مُورتی کے الفاظ میں نہ کہ مائیکل جاکسن کے)  

ہم مخصوص نہج پرمحسوس کرنے کے عادی ہوگئے ہیں: ناکامی کا خوف، مستقبل اور اتھارٹی کا خوف  وغیرہ۔ ہمارے یہ احساسات شائد اس دنیا کی فطرت سے زیادہ خود ہمارےبارے میں بتاسکتے ہیں کہ ہم کیسے سونچتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس چیز کو اچھا سمجھنے پر ہم اس کی غیر معمولی گرفت سے آزاد ہوسکتے ہیں۔

کسی چیز کی جڑ تک ہم کیسے پہنچ سکتے ہیں اور اس سے کیسے آزاد ہو سکتے ہیں ؟ 

چند ایسے سوالات ہیں جو راستہ کھول سکتے ہیں کہ ہمارا ذہن کیسے سوچتا ہے۔ ہم اکثر دلالت کرتے ہیں کہ سیکھنے کیلئے دماغ کو بیدار کرنے یا جگانے کی ضرورت ہے، اُسے کسی قسم کی مدہوشی سے نکال کر جس کیلئے ہمیں تکنیکوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے  وگرنہ ہم عدم توجہی کے بھنور میں کھو جاتے ہیں۔ لیکن اگر انسانی ذہن سیکھنے کیلئے ہمیشہ تیار رہےتب؟ اورکہیں اکتساب کی راہ میں رکاوٹ ہمارے شخصی تجربات اور وہ مضبوط احساسات ہیں جو اس تعلیمی نظام کوخطرے کی طرح منڈلاتے رہنے ہمارے خیالات ہوں جو ہمارے اندر مستقل طور پر ابھر رہے ہوں؟  کیا اس معاملے میں بڑھتی ہوئی عدم توجہی دراصل اسکی طرف ضرورت سے زیادہ توجہ دینا ہو؟ کسطرح ہم اس مسئلہ کو غور سے دیکھ سکتے ہیں اور استاد اور طالبعلم ہر دو آخر اس کی جڑ تک پہونچ کر اس سے نبرد آزمائی کرسکتے ہیں؟

ہمارے تجربات کی فطرت کیا ہے اور تجربہ پانے والا کون ہے؟

یہ وہ سوال ہے جومحسوس نہیں ہوتا کہ اساتذہ اور طلباء کو اسے مخاطب ہونے کی ضرورت ہے۔ شاید راہبوں، ننوں اور یہاں تک کہ کوئی بھی با لغ اِس کو مخاطب کرسکتا ہے لیکن طلباء نہیں!  لیکن، تعلیم ایسا لگتا ہیکہ اس سوال کواہم مانتی ہے۔ یہ سوال اسلئے بھی اہم ہے کہ ہماری “خودی” وہ عدسہ ہے جسکےذریعے ہم اس دنیا کو دیکھتےہیں۔ اور ہم اِس دنیا کو بہت کم سمجھتے نظر آتے ہیں کیونکہ ہم خودی کے عدسے کو مناسب انداز میں نہیں سمجھتے۔

ایک اچھا تدریسی طریقہ عمل سیکھنے اور جس چیز کو سکھایا جارہا ہے اس کے متعلق شوق کو ضرور بڑھاتا ہے(خاص کر اگر سیکھنے کا ذریعہ ایک بہترین استاد ہو!)۔ مزید یہ انتہائی ضروری لگتا ہے کہ مشاہدہ کیا جائے کہ کون سیکھ رہا ہے۔ خود کی سوانح عمری کے خطوط کا مشاہدہ جو خود مستقل طور پر دوسروں کے ساتھ رشتہ کو تعین کرتا رہتا ہے۔ وہ نفس جو بارہا مظاہرہ کرنے والے کے طور پر دکھلاتا رہتا ہے  چاہے وہ استاد ہو یا طالبعلم، والدین یا کوئی اور ہو۔ اس ذہن کی فطرت کیا ہے اور وہ کیا حقائق ہیں جو ہم اس دوران حاصل کرتے ہیں؟ ہم آسانی سے اس بارے میں طلباء کے ساتھ بات کرسکتے ہیں۔ جو امید ہیکہ غور و فکر کا آغاز کرسکتا ہے جو اسکول میں اکتساب کے ہر عمل میں طالبعلم کیلئے بہت موثر ثابت ہوگا۔   

اچھی تعلیم : ہم اکثر اچھے اساتذہ سے ملتے ہیں نہ صرف کلاس روم میں بلکہ زندگی کے مشکل سفر میں بھی۔ ایک اچھے استاد کے ذریعہ چنگاری سلگتی ہے، تحقیقی ذہن پیدا ہوتے ہیں اور اچھی تعلیم ممکن ہوتی ہے۔ ایسی تعلیم جو صرف ضروری مضامین تک مقید نہیں ہوتی بلکہ ایسی تعلیم جواپنے اندر کی دنیا اور باہر کی دنیا کے تئیں مستقل مشاہدہ کو زندہ رکھتی ہے۔


مصنف –  کرشنا ہریش

مترجم – فضل ممتاز 

بشکریہ- لرننگ کرو ، عظیم پریم جی یونیورسیٹی ،   بنگلور

Author: Admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے